کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 69
اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اورکسیجگہ پوری نہیں ہورہی ہیں،تو پھروہاں جمعہ پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ خیال کرنا کہ اگر جمعہ ادا نہ ہو تو ظہر ہوجائے گی،اس کی آپ کے پاس کیا ضمانت ہے کہ آپ نے جوظہر ادا کی ہے وہ مقبول ہے یا نامقبول؟یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ نماز بھی منہ پر ماردی جائے جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے۔یا وہ نماز پڑھنے والے کے خلاف بددعا ء کرے،کیونکہ حدیث ِ شریف میں یہ بھی مذکور ہے کہ اگر نمازی سکون‘اطمینان اور تسلی سے نماز کے تمام ارکان پوری طرح نہ بجالائے تو نماز اس کے لیے کہتی ہے: ((ضَیَّعَکَ اللّٰہُ کَمَا ضَیَّعْتَنِیْ))(حدیث) ’’یعنی اللہ تجھے ایسے ہی ضائع کرے جس طرح تو نے مجھے کیا ہے۔‘‘ الغرض اس’’ظہر ِ احتیاطی‘‘ کی بنیادمحض ایک واہمہ پر ہے،اور شریعت سے ثابت نہیں،لہٰذا بدعت ہے اور باعثِ عتاب وعذاب ہے۔ 3۔صلوٰۃ الرغائب: یہ نماز ہمارے شریعت ساز صوفیاء نے پتہ نہیں کس’’وحی‘‘ پراعتماد کرتے ہوئے ایجاد کررکھی ہے۔اور بڑے اہتمام کے ساتھ رجب کے مہینہ میں آنے والے پہلے جمعہ اور جمعرات کی درمیانی رات کو پڑھی جاتی ہے،اور ماہ ِ رجب سے متعلقہ سات آٹھ احادیث بنارکھی ہیں جن کی رو سے اس نماز کے خود ساختہ فضائل وبرکات کے اس طرح انبار لگائے جاتے ہیں کہ نورِ علم سے بے بہرہ لوگ حصول ِ ثواب‘شوقِ عبادت اور شب زندہ داری کے لیے کشاں کشان چلے آتے ہیں۔حالانکہ اس شب یعنی رجب کی پہلی جمعرات میں ایسی کوئی مخصوص عبادت یا نمازاللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم،صحابہ رضی اللہ عنہم اور اسلاف سے ثابت نہیں،بلکہ یہ عہدِ رسالت سے پانچ سوسال بعد کی ایجاد ہے۔