کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 67
پیش آیا تھا۔جو حدیث کی کتاب’’سُنن دارمی‘‘ میں بڑی تفصیل سے مذکور ہے۔حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کے ذکر کا جو انداز نقل فرمایا ہے۔وہ بالکل اسی طرح ہے جس کا ذکر گزشتہ سطور میں گزرا ہے۔ جب حضرت عبداللہ بن مسعودص کو اس انداز کی خبر ہوئی تو بڑے غصّے میں آکر ان لوگوں کو ڈانٹا اور فرمایا: ((وَیْحَکُمْ یَا اُمَّۃُ!مَا اَسْرَعَ ھَلَکْتُمْ ھٰؤُلآئِ صَحَابَۃُ نَبِیِّکُمْ مُتَوَافِرُوْنَ وَھٰذِہٖ ثِیَابُہ‘ لَمْ تَبُلَّ وَاٰ نِیَتُہُ لَمْ تَکْسُرْ))(دارمی،ص۱۳) ’’اے اُمّت!تم پر انتہائی افسوس ہے تم اتنی جلدی ہلاکت میں پڑگئے،ابھی تو آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم وافرتعداد میں زندہ و موجودہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بوسیدہ نہیں ہوئے اور ابھی تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برتن نہیں ٹوٹے۔‘‘ انھوں نے کہا: ((وَاللّٰہِ یَا اَبَاعَبْدِ الرَّحْمٰنِ!مَا اَرَدْنَا اِلَّا الْخَیْرَ)) (حدیثِ مذکورہ) ’’اے ابوعبدالرحمن!اللہ کی قسم!ہمارے پیش ِنظر بھلائی کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ توحضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((کَمْ مِّنْ مُّرِیْدِ الْخَیْرِلَنْ تُصِیْبَہ‘ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ(صلی اللّٰہ علیہ وسلم)حَدَّثَنَا اَنَّ قَوْماً یَقْرَ ُٔوْنَ الْقُرْآنَ لَایُجَاوِزُ عَنْ تَرَاقِیْھِمْ وَاَیْمُ اللّٰہِ مَا اَدْرِیْ لَعَلَّ اَکْثَرُھُمْ مِنْکُمْ))(سابقہ حوالۂ دارمی) ’’کتنے لوگ ہیں جو بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں مگروہ اسے نہیں پاسکیں گے،ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ ایک قوم قرآن پڑھے گی۔مگر ان کی قراء ت وتلاوت ان کے کانوں کی لوؤں سے اوپر نہیں جائے گی۔