کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 58
اور دوسرا ارشاد ِ ربّانی ہے: ﴿مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہٖ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہ‘ مُطْمَئِنٌّ م بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌoذَالِکَ بِاَنَّھُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا عَلیَ الْاٰخِرَۃِ﴾ (سورۃ النحل:۱۰۶۔۱۰۷) ’’جو ایمان لانے کے بعد کفر کرے،سوائے اُس کے جو مجبور کردیا جائے مگر اُس کا دل ایمان پر مطمئن ہو لیکن جن کا سینہ کفر سے کھل گیا(ملوّث ہوگیا)اُن پر اللہ کی طرف سے غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے،یہ اس لیے کہ انھوں نے دنیوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی اور اسے پسند کیا۔‘‘ ایسے لوگوں کا اللہ کے ہاں کوئی عذر قابل ِقبول نہیں،سوائے اس کے جو زبان سے کلمات ِ کفر کہنے پر مجبور ولاچار کردیا گیا ہو مگر اس کا دل ایمان پر مطمئن اور قائم ہو۔اور اس مجبوری کی صورت کے علاوہ کفر کرنے والا ایمان دار ہونے کے بعد کافر ہوگیا،چاہے اس نے یہ کسی کے خوف سے کیا ہو،یا کسی کی خوشامد کے طور پر،وطن پرستی میں آکر،خاندان اور اہل ِوعیال کی خاطر،حصول ِ مال کی حرص میں یا برسبیل ِ مذاق۔الغرض جس نے مجبوری ولاچاری کے سوا کسی بھی دوسری غرض سے کُفر کیا،وہ کافر ہوگیا۔ اس بات پر مذکورہ بالا آیت دوطرح سے دلالت کرتی ہے: اوّل: اِس فرمان ِ الٰہی کے الفاظ ’’اِلَّا مَنْ اَُکْرِہَ‘‘ میں اللہ نے سوائے مجبور وبے بس کے کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا۔اور یہ ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ انسان کو زبانی کچھ اگلنے اور یا نا چار کچھ کرگزرنے پر تو مجبور کیا جاسکتا ہے مگر دل کے عقیدہ پر اسے کوئی شخص کسی بھی صورت میں مجبور نہیں کرسکتا۔