کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 57
کو بخوبی پہچانتے ہیں۔‘‘ اگر کوئی شخص ظاہرداری کے لیے توحید کا بہروپ بنالے جبکہ وہ اسے اچھی طرح سے نہ سمجھتا ہو اور نہ اس پردل سے یقین رکھتا ہوتووہ منافق ہے اور پکّے کافر سے بھی بدتر ین ہے اور اس بات کا پتہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِیْ الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ﴾ (سورۃ النسآء:۱۴۵) ’’منافقین کا ٹھکانا جہنّم کی اتھاہ گہرائی میں ہوگا۔‘‘ غرض عذرِ لنگ کا یہ سلسلہ بہت طویل ہے۔جوں جوں آپ لوگوں کی باتوں پرغور وفکر کریں گے آپ پر اس کے اسراروبھید کھلتے جائیں گے۔آپ ایسے لوگوں کوبھی پائیں گے جو حق کو بخوبی سمجھتے ہیں‘ مگر مادّی نقصان اور جھوٹی شان وشوکت میں قلّت یا کسی کی خوشامد میں کمی سے ڈرتے ہوئے عمل نہیں کرتے۔آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جو حق پر دل سے نہیں بلکہ صرف ظاہری طور پر عمل کرتے ہیں اور اگر آپ نے اُن سے اعتقاد ِ قلب کے بارے میں کچھ پوچھ لیا تو اس معاملہ میں وہ بالکل کورے ہوں گے۔لیکن آپ کے لیے کتاب اللہ کی دوآیتوں کو اچھی طرح سے سمجھ لینا بہت ہی ضروری ہے۔اور ان میں سے پہلا فرمان ِ الٰہی ہے: ﴿لَا تَعْتَذِرُوْاقَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ﴾(سورۃ التوبہ:۶۶) ’’اب کوئی عذر نہ کرو،تم ایمان لا چکنے کے بعد کافر ہوگئے ہو۔‘‘ جب یہ بات کھل کر آپ کے سامنے آگئی کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیّت میں اہل ِ رُوم سے جہاد کیا،وہ ایک ایسے کلمہ کی بدولت کافر قرار دیئے گئے جو انھوں نے محض ہنسی مذاق میں کہا تھا۔تو یہ بات بھی آپ سے پوشیدہ نہ رہی کہ جو شخص کفریہ کلمات کہتا ہے اور دُنیوی مال ودولت‘جھوٹی جاہ وحشمت اور کسی کی خوشامد وجی حضوری میں قلّت کے خوف سے اس پر عمل پیرا رہتا ہے،وہ ازراہِ مذاق ایسا کلمہ کہنے والوں سے بھی کفر میں بدتر ہے۔