کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 55
ابراہیم علیہ السلام نار ِ نمرود میں ڈالے گئے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت ِ خلیل علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا: ’’ألَکَ حَاجَۃٌ؟‘‘کوئی ضرورت ہے؟ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:’’اَمَّا اِلَیْکَ فَلَا‘‘آپ کی ذات سے ہو تو کوئی ضرورت نہیں۔اگر جبرائیل ِ امین علیہ السلام سے استغاثہ شرک ہوتا تو وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اس کی پیش کش ہرگز نہ کرتے۔‘‘ جواب: یہ بھی پچھلے شک و شبہہ سے ہی ملتا جلتا ہے۔حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اسی کام میں پیش کش کی جو اس کے بس میں تھا۔کیونکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ارشاد ِ الٰہی کی رُو سے’’شَدِیْدُالْقُویٰ‘‘ بڑے ہی طاقتور ہیں۔اگراللہ انھیں اجازت دیتا کہ نار ِ نمرود،اس کے قرب وجوار کی زمین اور پہاڑوں کو اکھاڑ کر دور مشرق ومغرب میں پھینک دیں تو یہ اُن کے بس میں تھا۔اگراللہ حکم دیتا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس جگہ سے اٹھا کر کسی دُور دراز مقام پر پہنچادے تو یہ ان کے لیے ممکن تھا۔اور اگر انھیں ارشاد ہوتا کہ ابراہیم علیہ السلام کو آسمان کی طرف اُٹھالیں تو وہ اس پر بھی قادر تھے۔یہ واقعہ تو بالکل اُسی صاحب ِدولت و ثروت،غنی انسان کی پیشکش جیسا ہے جو کسی مجبور ومحتاج آدمی کو دیکھے اور اسے قرض دینے کی خواہش ظاہرکرے یا حسب ِ ضرورت اسے یوں ہی کچھ دینا چاہے مگر وہ پریشان حال محتاج اسکی پیشکش قبول کرنے سے معذرت کردے،اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے،یہاں تک کہ خود اللہ تعالیٰ اسے رزق عطا کرے جس میں وہ کسی غیر اللہ کا احسان مند نہ ہو۔اگر مشرکین میں کوئی فہم وفراست موجود ہے تو بتائیں کہ یہ استغاثہ،عبادت اور شرک کہاں ہے؟