کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 52
ایسے ہی دوسری حدیث اور اِس جیسی دیگر مثالیں ہیں جن کا معنیٰ یہی ہے جو ہم نے ذکر کیا کہ جب وہ توحید اور اسلام کا اظہار کردے تو اس کے قتل سے رُک جانا واجب ہے،جب تک کہ اُس سے کوئی ایسا کام روپذیر نہ ہو جو اس کے دعویٰ کے مخالف ہو۔اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے ((أَقَتَلْتَہ‘ بَعْدَ مَا قَالَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ))کہا اور جن کا فرمان ہے: ((أُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتیّٰ یَقُوْلُوْالَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ)) انہی کا خارجیوں کے بارے میں ارشاد ہے: ((اَیْنَمَا لَقِیْتُمُوْھُمْ فَا قْتُلُوْ ھُمْ لَئِنْ اَدْرَکْتُھُمْ لَاَ قْتُلَنَّھُمْ قَتْلَ عَادٍ))[1] ’’جہاں بھی تمہارا اُن سے سامنا ہو،انھیں قتل کردو۔اگر وہ مجھے مل جائیں تو میں انھیں عادیوں کی طرح قتل کردوں۔‘‘ حالانکہ خارجی عبادت کرنے،لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے اور تسبیح پڑھنے میں عام لوگوں سے بڑھ کرتھے،یہاں تک کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو کمتر اور معمولی سمجھتے تھے۔خوارج نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ہی علم بھی سیکھا تھامگر جب ان سے شریعت کی مخالفت ظاہر ہوئی تو انھیں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے سے کچھ بھی فائدہ نہ ہوا۔ یہی حال یہود اور بنو حنیفہ سے جہاد کرنے کا ہے۔ اسی طرح جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص نے خبر دی کہ بنو مصطلق نے زکوٰۃ روک لی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ جہاد کرنے کا ارادہ فرمالیا،اُسی وقت یہ آیت نازل ہوئی: ﴿یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَائٍ فَتَبَیَّنُوْا﴾ (سورۃ الحجرات:۶)
[1] بخاری، کتاب الانبیاء: ۶۱۔ مسلم ، کتاب الزکاۃ: ۱۴۳، ۱۴۶