کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 44
انکار کردیا۔اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کچھ لوگ حج کرنے پر تیار نہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿وَلِلّٰہِ عَلیَ النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیلْاً وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِیْنَo﴾(سورۃ آل عمران:۹۷) ’’ان لوگوں پر جو زادِ راہ(خرچ)رکھتے ہوں صرف اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے اور جس نے کفر کیا اللہ(اُسی سے کیا)ساری دنیا سے مستغنی اور بے نیازہے۔‘‘ اور جس نے ان سب فرائض کا اقرار کرلیا لیکن حیات ِ اُخروی کا انکار کردیا،اس کے کافر ہونے اور اس کی جان ومال مسلمانوں کے لیے بطور ِغنیمت حلال ہونے پر بھی علماء اُمت کا اتفاق ہے۔جیسا کہ ارشاد ِ ربانی ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْابَیْنَ اللّٰہِ وَرُسُوْلِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوابَیْنَ ذَالِکَ سَبِیْلاًoاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ حَقّاً وَاَعْتَدُنَا لِلْکَافِرِیْنَ عَذَاباً مُّھِیْنَاo﴾(سورۃ النساء:۱۵۰۔۱۵۱) ’’جو لوگ اللہ کے ساتھ اور اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق رکھیں اور جو لوگ کہتے ہیں کہ بعض نبیوں پر تو ہمارا ایمان ہے اور بعض پر نہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے اور اس کے بین بین کوئی راہ نکالیں۔یقین مانو کہ یہ سب لوگ اصلی کافر ہیں اور کافروں کے لیے ہم نے اہانت آمیز سزا تیار کررکھی ہے۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ اپنی کتاب قرآن ِ پاک میں صراحت فرماچکا ہے کہ جو شخص بعض امور پر ایمان لائے اور بعض کا انکار کرے وہ حقیقی معنوں میں پکّا کافر اور مذکورہ عذاب