کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 26
بچو کیونکہ انہی لوگوں کا اللہ نے ذکرفرمایا ہے۔‘‘ اس کی مثال اِس طرح ہے کہ جب کوئی مشرک آپ سے کہے کہ اللہ نے فرمایا ہے: ﴿اَلَا اِنَّ اَوْلِیَائَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo﴾ ’’سن لو کہ جو اللہ کے دوست ہیں،انھیں نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہونگے۔‘‘ (اِنَّ الشَّفَاعَۃَ حَقٌ وَاِنَّ الْاَنْبِیَآئَ لَھُمْ جَاہٌ عِنْدَاللّٰہِ) ’’بلاشبہ شفاعت حق ہے اوربیشک اللہ کے ہاں انبیاء کی خاص قدر ومنزلت ہے۔‘‘ یا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث اپنے باطل نظریات کے جواز کے لیے پیش کرے اور آپ اس کی ذکر کروہ بات کا معنیٰ ومطلب نہیں سمجھتے‘تو اُسے اس طرح جواب دیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن ِ پاک میں ان لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جو کج فہم وکج رَوہیں اور مُحکم آیات کو چھوڑ کر متشابہات کی پیروی کرتے ہیں۔اورمیں نے اللہ کا جو فرمان ذکر کیا ہے اسے وہ بھی بتائیں کہ مشرکین ِ مکّہ توحید ِ ربوبیّت کے قائل تھے مگر ان کا کفر ملائکہ وانبیاء اور اولیا ء سے غلط وبے جا تعلق کی وجہ سے تھا۔اور یہ بھی بتائیں کہ وہ کہتے تھے: ﴿ھٰؤُلَآئِ شُفَعَآئُ نَا عِنْدَاللّٰہ﴾ ’’ یہ تو اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘ یہ بات قطعی اور واضح ہے جس کا معنیٰ بدلنے کی کسی میں جرأت نہیں۔ اور اُس مشرک سے کہیں کہ تو نے قرآن ِ پاک اور حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ ذکر کیا ہے،میں تواس کا مطلب نہیں سمجھتا مگر یہ قطعی بات ہے کہ اللہ کے کلام میں تضاد یا تناقص نہیں ہے،اور نہ ہی حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کلام اللہ کی مخالف ہوتی ہے۔یہ بڑا عمدہ،صحیح اورمُسکِت جواب ہے۔آپ اِسے معمولی نہ سمجھیں۔لیکن اِسے سمجھ وہی سکتا ہے جسے توفیقِ الٰہی اورتائید ِ باری تعالیٰ حاصل ہو،جیساکہ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: