کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 21
کے سبب اکثر لوگوں کی ابتر حالت آپ نے دیکھ لی تو اس سے آپ کو دو فائدے حاصل ہوں گے: پہلا فائدہ:اس کا پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت(عقیدۂ توحیدکے اپنانے)پر خوشی حاصل ہوگی،جیسا کہ ارشاد ِ باری ہے: ﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَلْیَفْرَا حُوْاھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo﴾(سورۃ یونس:۵۷) ’’کہہ دیجیئے کہ اللہ کے فضل اور رحمت پر خوش ہوجائیں۔یہ ان کی جمع پونجی سے بدرجہا بہتر ہے۔‘‘ دوسرا فائدہ:اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ کفر وشرک کے ارتکاب کابہت زیادہ خوف دل میں بیٹھ جائے گا۔بلاشبہ جب آپ کو علم ہوگیا کہ انسان اپنی زبان سے نکلی ہوئی کسی بات سے کافر ہوجاتا ہے،اگرچہ وہ نا دانستہ طور پروہ بات کرتا ہے۔لیکن اس کا عذر ِ نادانستگی رائیگاں جائےگا۔ایسی بات کرتے ہوئے وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہوتاہے کہ یہ اُسے اللہ کا مقرّب بنادے گی جیسا کہ کفار کرتے تھے۔بالخصوص اگر اللہ آپ کووہ واقعہ ذہن نشین کرادے جو قوم ِ موسیٰ علیہ السلام کے علم وصلاحیت اور نیکی کے باوجود ان کے متعلق بیان کیا گیاہے کہ وہ یہ کہتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے: ﴿اِجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھاً کَمَا لَھُمْ آلِھَۃٌ﴾(سورۃ الاعراف:۱۳۸) ’’ہمارے لیے بھی ان مشرکین کے بتوں کی طرح ایک مجسّم معبودمقرر کردیں۔‘‘ انکا یہ واقعہ آپ میں ایسے انجام تک پہنچانے والے کفر وشرک کے ارتکاب کے خوف اور اس انجام سے بچانے والی توحید کی حفاظت کے جذبے کو بہت زیادہ کردے گا۔