کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 19
تیسری فصل:............................. لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا مطلب یہ تو حید ِ عبادت(یا توحید ِالوہیّت)ہی ہے جو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا معنیٰ مقصود اور مطلوب ہے۔مشرکین ِ مکّہ کی نظر میں بِلاتردّد’’الٰہ‘‘ وہی تھا جس کی طرف ان امور(دُعاء۔نذر۔ذبح۔استغاثہ)کے لیے قصد کیا جائے چاہے وہ فرشتہ ہو،نبی ہو یا ولی،درخت ہو،قبر ہو یا جن بھوت۔مشرک یہ تو نہ مانتے تھے کہ الٰہ وہ ہے جو پیدا کرتا ہے،رزق دیتا ہے اور کارساز ہے۔وہ سمجھتے تھے کہ یہ صفات تو صرف اللہ تعالیٰ کی ہیں جیسا کہ سابقہ سطور میں ان کا اقرار پیش کیا گیا ہے۔دراصل اِلٰہ سے ان کی یہی مراد ہوتی تھی جو کہ ہمارے زمانے کے مشرکین کی ’’پیر ومرشد‘‘ سے ہوتی ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں کلمۂ توحید: ((لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ)) ’’ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘ کی طرف دعوت دینے کے لیے آئے اور اس کلمہ سے اس کا اصل معنیٰ مقصودو مطلوب تھا‘ نہ کہ صرف اس کی عبارت والفاظ۔اور وہ جاہل کفار جانتے تھے کہ اس کلمہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد صرف ایک اللہ سے تعلق پیدا کرنا،اللہ کے مقابل تمام معبودانِ باطلہ کا انکار کرنا اور ان کی عبادت سے بریٔ الذّمہ ہونا ہے۔لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انھیں فرمایا کہ کہو: ((لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ)) ’’اللہ کے سِوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘ توانھوں نے جواب دیا: ﴿اَجَعَلَ الْاٰ لِھَۃَ اِلٰھًا وَّاحِدًا اِنَّ ھٰذَ الَشَیْئٌ عُجَابٌo﴾ (سورۃ صٓ:۵)