کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 18
کی وجہ سے پکارتے،تاکہ وہ ان کی شفاعت وسفارش کریں،یا کسی نیک آدمی جیسے لات یا کسی نبی مثلاً عیسیٰ علیہ السلام کو پکارتے تھے۔اور آپ یہ بات بھی سمجھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ اسی شرک کی وجہ سے جہاد کیا اور انہیں اللہ کی مخلصانہ عبادت کی دعوت دی۔جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
﴿وَاِنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ قَلَا تَدْ عُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًاo﴾
(سورۃ الجنّ:۱۸)
’’اور بیشک مساجد اللہ کیلئے ہیں لہٰذااللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو مت پکارو۔‘‘
اور فرمان ِ الٰہی ہے:
﴿لَہ‘ دَعْوَۃُ الْحَقِّ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَھُمْ بِشَیْئٍ﴾
(سورۃ الرعد:۱۴)
’’حقیقی دعوت وپکار اُسی کے لیے ہے اور جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ اُنہیں کوئی جواب نہیں دیتے۔‘‘
اس طرح یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ جہاد کیا تا کہ دُعاء وپکار‘نذر ونیاز‘ ذبح وقربانی‘ استغاثہ واستعانت اور عبادت کی دیگر تمام قسمیں محض اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہو جائیں۔
اور جب آپ کو اس بات کا علم بھی ہوگیا کہ ان کے صرف توحید ِ ربوبیّت کے اقرارنے انہیں اسلام میں داخل نہ کیا اور بلا شبہ ملائکہ،اَنبیاء و اولیاء کی شفاعت اور تقرّب الٰہی کی خاطر ان کی طرف قصد کرنا ہی وہ گناہ تھاکہ جس نے ان کے جان ومال(بطورِغنیمت مسلمانوں کیلئے)حلال کردیئے،تب آپ کو اُس توحید کا علم ہوگیا جس کی طرف رسولوں علیہم السلام نے دعوت دی اور جس کے ماننے سے مُشرکین نے انکار کردیا۔