کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 16
ہیں۔اور اللہ کے ہاں ان کی سفارش کے خواہاں ہیں۔
تب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کے لیے اُن کے جدِّامجد حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دین کی تجدید کریں اور ان کو خبردار کریں کہ یہ تقرّب اور عقیدت تو صرف اور صرف اللہ کا حق ہے۔یہ کسی مقرّب فرشتے کے لیے رَوا ہے نہ کسی برگزیدہ نبی کے لیے زیبا،چہ جائیکہ کسی دوسرے کے لیے ہو۔ورنہ یہ تو پہلے مشرکین بھی مانتے تھے کہ اللہ جلَّ شانہ،بِلاشرکت ِ غیرے خالق ِ کائنات ہے،اُس کے سوا کوئی رازق نہیں،اس کے علاوہ کوئی پیدا کرنے والا نہیں اور نہ ہی کوئی مارنے والا ہے۔اُس کے سوا کوئی کارساز نہیں اور یہ ارض وسماء اور جو کچھ اِن میں ہے،سب اس کے غلام اور اس کے قبضہ قدرت میں ہیں۔
دوسری فصل........
مشرکین کا ا قرارِ توحیدِ ربوبیّت
اگر آپ کو اس کا ثبوت درکار ہو کہ جن مشرکین کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال و جہاد کیا وہ توحید ِ ربوبیّت کے قائل تھے تو اللہ تعالیٰ کے اس ارشادِ مُبارک پر غور فرمائیں:
﴿قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَالْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَo﴾(سورۃ یونس:۳۱)
’’ ان سے پوچھیں کہ ارض وسما ء سے پیدا کرکے رزق کون دیتاہے؟شنوائی اور بینائی کس کی ملکیت ہیں؟عدم سے ہستی اور ہستی سے عدم میں کون لاتا ہے؟(یعنی موت وحیات کون دیتا ہے؟)اور کارساز کون