کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 11
جو دوست چار لفظ جانتے ہیں،انہیں حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ((مَنْ کَانَ آخِرُ کَلَامِہٖ لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ)) یا اس کا مفہوم بڑا مستحضر اور ازبر ہے کہ ’’ مرتے وقت جس کی زبان سے کلمہ جاری ہوگیا وہ جنّت میں جائے گا ۔‘‘ اور...((اِذَا کَانَ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ))’’ اگر وہ مشرک نہ ہو‘‘ کی شرط اور قرآن کی آیت: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَایَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذَالِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾(النساء:۴۸) ’’بلاشبہ اللہ مشرک کو معاف نہیں کریگا اور اسکے علاوہ وہ جسے چاہے معاف کردے۔‘‘ سے چشم پوشی کرتے ہوئے ہر کلمہ گو مسلمان کا خاتمہ بالکلمہ لازم وملزم اور اس کی نجات’’دو اور دو چار‘‘ کی طرح حتمی سمجھ لی گئی ہے‘اِس خوش فہمی میں یار لوگ کتاب وسنّت کو پس ِ پشت ڈالے‘ کارِجہاں کی لگن میں مگن ہیں۔نتیجہ یہ کہ پوری قوم عملی جمود کا شکار ہے اور شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کی دعوت ِ فکر بھی صدابصحراکہ زبان سے کہہ بھی دیا لَا اِلٰہَ تو کیا حاصل دل ونگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں رہ سہہ کر تھوڑے سے لوگ میدان ِ عمل میں نظر آتے ہیں۔ان کو قریب ہو کر دیکھیں تو وہ بے تاج بادشاہ نکلیں گے۔امورِ دین میں اپنی من مانی کرتے ہیں۔عمل کی صحت وعلّت کا پتہ کرنے کے لیے قرآن یا حدیث کی ضرورت ہی محسوس نہیں