کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 96
ہمارے لیے ہے اور اس کی بدعت اسی پر(وبال) ہے۔(میزان الاعتدال 1؍5 ترجمۃ ابان بن تغلب) 3۔جس قصاب کو آپ مرتد،کافر یامشرک سمجھتے ہیں اور اس کا آپ کے پاس واضح ثبوت بھی ہے تو اس کا ذبیحہ نہ کھائیں۔رہے اہل بدعت تو دلائل مذکورہ کی رُو سے ان کا ذبیحہ حلال ہے۔ 4۔سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا اثر،سعید بن منصور سے باسند صحیح متصل نہیں ملا۔بے سند روایتیں مردود ہوتی ہیں۔سعید بن منصور سے لے کر ابن مسعود رضی اللہ عنہ تک سند بھی نامعلوم ہے ۔نیزدیکھئے:6۔ 5۔اس روایت کی سندضعیف ہے۔اسے ابن جریج نے عمرو بن دینار سے"عن"کے ساتھ روایت کیا ہے اور ابن جریج مشہور مدلس ہیں۔ 6۔حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ ؍ مصنف عبدالرزاق،اس روایت کی سند میں ابواسحاق السبیعی مدلس ہیں اور روایت"عن" سے ہے، لہذا یہ سند بھی ضعیف ہے۔ 7۔میرے علم کے مطابق صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین رحمہ اللہ میں سے کوئی بھی ہندو مشرکین وغیرہ کے ذبیحے کے جواز کا قائل نہیں ہے۔رہامسئلہ اہل بدعت کا تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ خارجیوں اور خشبیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے۔(دیکھیئے طبقات ابن سعد 1؍169،170،حلیۃ الاولیاء1؍309 وسندہ صحیح) آپ انھیں سلام بھی کہتے تھے۔(السنن الکبریٰ للبیہقی 3؍122،وسندہ صحیح) آپ مشہور ظالم حجاج بن یوسف جیسے بدعتی کے پیچھے بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ (دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی 3؍121،122،وسندہ حسن) حجاج بن یوسف کے بارے میں حافظ ذہبی نے کہا: "وَكَانَ ظَلُوْماً ، جَبَّاراً ، نَاصِبِيّاً ، خَبِيْثاً....." ’’اور وہ ظالم جبار(اور) ناصبی خبیث تھا۔(سیر اعلام النبلا 4؍343) تنبیہ: واضح رہے کہ راجح یہی ہے کہ بدعت کبریٰ کے مرتکب کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔تفصیلی تحقیق کے لیے دیکھئے راقم الحروف کی کتاب ’’بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم‘‘ یہ بات بھی دلائل سے معلوم ہوتی ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ا پنے اس عمل سے رجوع کرلیا تھا کیونکہ ایک دفعہ ایک بدعتی نے آپ کو سلام بھیجا تو آپ نے(اس کی بدعت کی وجہ