کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 93
کافرہے ۔اور بعض اسے فاسق وفاجر کہتے ہیں۔حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے کتاب الصلوٰۃ میں فریقین کے دلائل جمع کردیے ہیں ۔محدث البانی رحمہ اللہ اور بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ تارک الصلوٰۃ کافر نہیں ہے۔محدث عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:’’بے نماز کا ذبیحہ مسلمانوں کوکھانا جائز ہے یا نہیں؟‘‘تو انھوں نے جواب دیا:’’بے نماز بے شک کافر ہے خواہ ایک نماز کا تارک ہو یاسب نمازوں کا کیونکہ:"مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ كَفَرَ" عام ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر تارک صلوٰۃ کافر ہے رہا بے نماز کا ذبیحہ کا حکم سو وہ اہل کتاب کے حکم میں ہونے کی وجہ سے درست ہوسکتا ہے خواہ نیک ذبح کرنے والا پاس موجود ہو یا نہ،ہاں نیک ہر طرح سے بہتر ہے اور بے نماز جب کافر ہواتو اس کا کھانا مثل عیسائی کے کھانے کے سمجھ لینا چاہیے۔حتی الوسع اس سے پرہیز رکھے عند الضرورۃ کھا لے۔‘‘(فتاویٰ اہل حدیث ج2 ص 604) ہمارے استاذ محترم حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:’’بے نماز کے متعلق اکثر کہا جاتاہے کہ وہ کافر ہے اگر یہ بات درست ہے تو کیا بے نماز کا ذبیحہ حلال ہے یا حرام؟‘‘تو انھوں نے جواب دیا:"اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَهُمْ" ’’آج حلال ہوئی تم کو سب پاک چیزیں اور اہل کتاب کاکھانا تم کوحلال ہے اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے۔‘‘ عام مفسرین نے اس مقام پر طعام کی تفسیر ذبیحہ فرمائی ہے تو جب اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے تو کلمہ پڑھنے والوں کا ذبیحہ بھی حلال ہے خواہ وہ نماز نہ پڑھتے ہوں کیونکہ وہ اہل کتاب تو ہیں ہی ۔ہاں اگر بوقت ذبح غیر اللہ کا نام لیاگیا ہوتووہ ذبیحہ حرام ہے خواہ ذبح کرنے والا پکا نمازی ہی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:"وَلا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللّٰه عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ" ’’اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر نام نہیں لیا گیا اللہ کا اور یہ کھانا گناہ ہے۔‘‘(الانعام:121)نیز فرمایا:"وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ"’’اور جس جانور پر نام پکارا جائے اللہ کے سوا کسی اور کا۔‘‘ 1؍4؍1418ھ‘‘ (احکام ومسائل ج1 ص452)