کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 91
(مصنف عبدالرزاق 4؍487ح8578)
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم یا تابعین میں سے کوئی مشرکین کے ذبیحے کے جواز کا بھی قائل ہے؟براہ مہربانی اس مسئلے کی تفصیلاً راہنمائی فرمائیں۔
اہل کتاب کے علاوہ مشرکین کے ذبیحے کو حرام قرار دینے والوں کے دلائل درج ذیل ہیں:
1۔ذبیحہ کرنا عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ مشرک کی عبادت قبول نہیں کرتا۔
2۔اہل کتاب کے علاوہ مشرکین کے ذبیحے کے حرام ہونے پر اجماع ہے(یہ) امام احمد رحمہ اللہ اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا ہے۔
3۔قرآن مجید میں اہل کتاب کے ذبیحہ کو جائز قرار دیا گیا ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ باقیوں(دوسروں) کاحرام ہے۔ (سیدعبدالسلام زیدی عبدالحکیم ضلع خانیوال)
الجواب: ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: "فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰه عَلَيْهِ" ’’جس پر(ذبح کرتے وقت) اللہ کا نام لیا جائے تو اس میں سے کھاؤ۔‘‘(الانعام:118)
اس آیت کریمہ اور دیگر دلائل کی رُو سے اس پر اتفاق ہے کہ صحیح العقیدہ مسلمان کاذبح شدہ حلال جانور حلال ہے بشرطیکہ وہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لے اور کوئی شرع مانع (رکاوٹ) نہ ہو۔دیکھئے موسوعۃ الاجماع فی الفقہ الاسلامی (2؍448)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہاں ایسے لوگ ہیں جو شرک سے نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں،وہ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انھوں نے ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"سَمُّوا اللّٰه عَلَيْهِ، وَكُلُوا " اس پر اللہ کا نام لے لو اورکھاؤ۔(صحیح البخاری :2057،7398)
اس سے معلوم ہوا کہ اہل اسلام کے ذبیحے کو حسن ظن کی بنیاد پر کھا یا جائے گا اور یہ ضروری نہیں ہے کہ آدمی ہر قصاب سے پوچھتا پھرے کہ آپ نے اس پر اللہ کا نام لیا تھا یا نہیں؟
اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ذبح شدہ جانور پر اللہ کا نام نہیں لیاگیاتو یہ ذبیحہ حرام ہے۔