کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 89
الجواب: "نعمت البدعة هذه" سے مراد بدعت شرعی نہیں بلکہ بدعت لغوی ہے۔دیکھئے منھاج السنۃ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ومرعاۃ المفاتیح (4؍327ح1309) یہی تحقیق شاطبی (الاعتصام 1؍250) اور ابن رجب(جامع العلوم والحکم:28) کی ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"والبدعة على قسمين : القسم الاول:
تارة تكون بدعة شرعية كقوله صلي اللّٰه عليه وسلم"
"وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ "
القسم الثاني:"وتارة تكون بدعة لغوية، كقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضي اللّٰه عنه عن جمعه إياهم على صلاة التراويح و استمرارهم: نعْمَتْ البدعةُ هذه".
بدعت کی دو قسمیں ہیں:(1) بدعت شرعی جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:(دین میں) ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
2۔اورکبھی یہ بدعت لغوی ہوتی ہے جیسے امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کا قول،جو لوگوں کو نماز تراویح پر مستقل جمع کرنے کے بارے میں ہے ،یہ اچھی بدعت ہے۔(تفسیر ابن کثیر 1؍348،البقرۃ:117)
یادرہے کہ تراویح کی جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً اورفعلاً دونوں طرح ثابت ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہر وہ بدعت گمراہی ہے جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
اسے بدعت شرعی کہا جاتا ہے۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قول میں بدعت سے مراد شرعی بدعت نہیں بلکہ ایک ایسے عمل کو بدعت کہا گیا ہے جو کہ سنت سے ثابت ہے لہذا اسے لغوی بدعت کہاجائے گایہ شرعی بدعت نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَنْ أَحْدَثَ فِي دِينِنَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ "
’’جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی بات نکالی جو اس میں موجود نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘
(جزء من حدیث لوین:69وسندہ صحیح ،شرح السنۃ للبغوی :103 ،وسندہ حسن)