کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 88
یہ ساری روایات اُصول حدیث کی رُو سے ضعیف اور مردود ہیں۔محمد بن عجلان مدلس راوی ہیں، لہذا اُن کی عن والی روایت کوضعیف ومردود ہی سمجھا جائے گا۔
خلاصہ یہ کہ کشف بھی غیب دانی کا ایک نام ہے اور اُمتِ مسلمہ میں قیامت تک کسی کو کشف یا الہام نہیں ہوتا۔
نام نہادبزرگوں کے جن واقعات میں کشف والہام کا تذکرہ ہے،وہ سارے واقعات بے اصل اور مردود ہیں۔(الحدیث:28)
بدعت لغوی اور بدعت شرعی میں فرق
سوال: (1) بریلوی مولوی اپنی مروجہ بدعات کو ثابت کرنے کے لیے درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں:
1۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاتراویح کی جماعت کاحکم دینااور فرمانا"نعمت البدعة هذه" یہ ایک اچھی بدعت ہے ۔لہذا اچھی بدعت جائز ہے۔
2۔مرقاۃ باب الاحکام میں حدیث ہے:جس کام کو مسلمان اچھا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔
3۔مشکوٰۃ باب العلم میں ہے:’’جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے گا اس کو اس کا ثواب ملے گا اور اس کو بھی جو اس پر عمل کریں گے اور ان کےثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی۔اور جو شخص اسلام میں براطریقہ جاری کرے گا۔تو اس پر اس کاگناہ بھی ہےاور اس کا بھی جو اس پر عمل کریں گے اور ان کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی۔‘‘
آپ ذرا ان دلائل کا پوسٹ مارٹم کردیں۔جزاکم اللہ خیراً۔
2۔کیا’’بدعت حسنہ‘‘اور ’’ بدعت سیئہ ‘‘کی تقسیم درست ہے؟جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل وقول موجود ہے یعنی تراویح کی جماعت کا حکم اور فرمایا: "نعمت البدعة هذه" ’’یہ ایک اچھی بدعت ہے ۔‘‘اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ "’’ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘(حافظ عاطف منظور ،فتح ٹاؤن اوکاڑہ)