کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 86
مسنداحمد(ج 1ص 112)میں ہے کہ"الأبدالُ يكونونَ بالشَّام....الخ"’’ابدال شام میں ہوں گے۔۔۔الخ‘‘ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔شریح بن عبید کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔دیکھئے تعلیق الشیخ احمد شاکر علی المسند(ج2ص171) وقال ابن عساكر:"هذا منقطع" ’’اور ابن عساکر نے کہا:یہ منقطع ہے۔‘‘ (الحاوی للفتاوی 2؍242) معلوم ہوا کہ ابدال والی تمام روایات ضعیف ومردود ہیں۔بعض علماء کا یہ قول کہ ’’فلاں شخص ابدال میں سے تھا‘‘ کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے اور نہ اس سے صوفیوں والے ابدال مراد ہیں۔ اس لیے:"نظم اللآل في الكلام على الأبدال"اور"الخبر الدال على وجود القطب والأوتاد والنجباء والأبدال" جیسی کتابیں لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ "ثَبِّتِ العَرْشَ ثُمَّ انْقُشْ"’’پہلے تخت کو ٹھہرائیں پھر نقش نگاری کریں۔‘‘ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نےسیف بن عمر(کذاب) وغیرہ کی روایات جمع کرکے ابدال وغیرہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔(دیکھئے الحاوی للفتاویٰ ج 2 ص 242) قطب اقطاب والی ایک روایت بھی نہیں ملی۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "ومن ذلك أحاديث الأبدال والأقطاب والأغواث والنقباء والنجباء والأوتاد كلها باطلة على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم" اوراس میں سے ابدال،اقطاب(جمع قطب)،اغواث(جمع غوث) ،نقباء(جمع نقیب)،نجباء(جمع نجب) اور اوتاد(جمع وتد) کی تمام احادیث باطل ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف انھیں باطل طور پر منسوب کیاگیاہے۔(المنارالمنیف ص 136 فقرہ:307) اسے ملا علی قاری نے بھی الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعہ(ص 470) میں نقل کیا ہے۔(شہادت،دسمبر 2001ء) فائدہ: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :فتنہ ہوگا ،اس میں لوگ اس طرح تپیں گے جس طرح سونا