کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 85
وغیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے اسے’’صحیح قراردیا ہے۔‘‘ (دیکھئے عقیدۂ توحید اور حقیقت شرک ص266 طبع ہفتم جون 2005ء) معلوم ہواکہ طاہر القادری صاحب کا یہ کہنا کہ’’امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے‘‘ صریح جھوٹ ہے۔ تنبیہ:امام حاکم رحمہ اللہ کی تردید حافظ ذہبی نے تلخیص المستدرک میں کردی ہے اور فرمایا ہے:"بل موضوع" بلکہ یہ روایت موضوع(من گھڑت) ہے۔ اس روایت کی سند عبدالرحمان بن زید بن اسلم اور عبداللہ بن مسلم الفہری کی وجہ سے موضوع ہے۔تفصیل کے لیے دیکھئے سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ للشیخ الالبانی رحمہ اللہ (1؍38،47ح25) وما علینا الاالبلاغ (الحدیث:22) قطب وابدال کی شرعی حیثیت سوال: کچھ لوگ قطب اور ابدال کے وجود پر حدیث پیش کرتے ہیں۔یہ حدیث کہاں ہے اور اس کی حیثیت کیا ہے؟ (سیدعبدالناصر،ضلع مردان) الجواب: سنن ابی داود(کتاب المہدی باب1ح4286)اورمسنداحمد(ج2 ص316) میں ہے کہ: "فَإِذَا رَأَى النَّاسُ ذَلِكَ أَتَاهُ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعَصَائِبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَيُبَايِعُونَهُ...الخ" ’’پھر جب لوگ یہ دیکھیں گےتو اس کے پاس شام کے ابدال اور عراق کی ٹولیاں آکر اُس کی بیعت کریں گی۔الخ‘‘ اس کی سند قتادہ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔’’صاحب لہ‘‘ بھی مجہول ہے۔ مسند احمد(ج5 ص 322) کی ایک روایت میں ہے کہ: "الأبدال في هذه الأمة ثلاثون...الخ" ’’اس اُمت میں تیس ابدال ہیں۔۔۔الخ‘‘ امام احمد رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’’منکر‘‘ کہا ہے۔اس کے راوی حسن بن ذکوان سخت مدلس تھے اور عن سے روایت کی ہے۔ عبدالواحد بن قیس ضعیف علی الراجح راوی ہے۔ نیز سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ سے اس کی ملاقات بھی ثابت نہیں۔یعنی یہ سند ضعیف ہی ضعیف ہے۔