کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 84
میں وضاحت کریں۔علمائے سلف پر حنفی(!) حضرات الزام لگاتے ہیں کہ وہ توسل بالموتیٰ کے قائل تھے ،قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔(حافظ محمد عمران،حافظ آباد) الجواب: توسل بالاموات کا مطلب یہ ہے کہ دعا میں مردہ لوگوں کا وسیلہ پیش کیا جائے۔ یہ تو سل بدعت ہے۔کتاب وسنت اور سلف صالحین سے توسل بالاموات ثابت نہیں ہے لہذا اس سے کلی اجتناب کرنا چاہیے۔ یہ ایسی بدعت جو چور دروازے کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کاڈائریکٹ تعلق شرک سے ہے یعنی یہی توسل بسا اوقات شرک کی بھیانک شکل اختیار کرلیتا ہے۔اس سلسلے میں تفصیلی معلومات کے لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب الوسیلہ اور دیگر کتب کا مطالعہ کریں۔(شہادت،دسمبر 2000ء) طاہر القادری صاحب کے ایک حوالے کی تحقیق سوال: ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام نے نبی کریم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعاکی تھی۔(المستدرک للحاکم 2؍615 ح4228 دلائل النبوۃ للبیہقی 5؍489)یہ روایت نقل کرکے ڈاکٹر محمد طاہر القادری(بریلوی) صاحب لکھتے ہیں: الف۔امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح الاسناد کہا ہے ۔ ب۔امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے"(الاربعین فی فضائل النبی الامین ص55 طبع چہارم 2002ء) کیا واقعی امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قراردیاہے؟اور کیا واقعتاً یہ روایت صحیح ہے؟(ابوثاقب محمد صفدر حضروی) الجواب: عرض ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ہر گز صحیح قرار نہیں دیا۔بلکہ امام بیہقی رحمہ اللہ یہ روایت لکھ کر فرماتے ہیں: "تفرد به عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، من هذا الوجه، وهو ضعيف" ’’اس سند کے ساتھ عبدالرحمان بن زید بن اسلم کا تفرد ہے اور وہ ضعیف ہے۔‘‘ (دلائل النبوۃ 5؍489) ایسے ہی طاہر القادری صاحب اپنی دوسری کتاب میں یہی حدیث نقل کرکے امام بیہقی