کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 83
ابن حبان نے کہا:یہ ثقہ راویوں سے موضوع حدیثیں بیان کرتاتھا۔(المجروحین 2؍286،الحدیث :24 ص52) معلوم ہوا کہ یہ سند موضوع ہے۔حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے ابو الشیخ(الاصبہانی) کی طرف منسوب کتاب’’الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ سے اس کی دوسری سند دریافت کی ہے۔(دیکھئے جلاء الافہام ص 54) اس سند میں عبدالرحمان بن احمد الاعرج مجہول الحال راوی ہے لہذا یہ سند ابومعاویہ الضریر تک بھی ثابت نہیں ہے۔سلیمان بن مہران الاعمش مشہور مدلس تھے اور ان کی عن والی روایت ابو صالح سے ہو یا کسی اور سے،غیرصحیحین میں ضعیف ہی ہوتی ہے۔دیکھئے ماہنامہ الحدیث:33ص38تا43۔ حافظ ذہبی کااعمش کی ابو صالح وغیرہ سے روایت کو محمول علی الاتصال قرار دینا غلط ہے۔ خلاصۃ التحقیق:یہ روایت دونوں سندوں کے ساتھ ضعیف یعنی مردود ہے۔نیز دیکھئے الضیعفۃ للالبانی(203) ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس ایک فرشتہ مقرر ہے جو آپ کو امتیوں کے درود پہنچاتا ہے۔(الصحیحۃ للالبانی:1530 بحوالہ الدیلمی والسخاوی) یہ روایت اپنی دونوں سندوں کے ساتھ ضعیف ومردود ہے۔پہلی سند میں بکر بن خداش مجہول الحال اور محمد بن عبداللہ بن صالح المروزی مجہول ہے۔دوسری سند میں نعیم بن ضمضم مجہول اور عمران بن حمیری مجہول الحال ہے لہذا اسے حسن قرار دینا غلط ہے۔ صحیح روایت میں آیا ہے کہ اللہ کے فرشتے زمین میں پھرتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی امت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں۔(سنن النسائی3؍43 ح1283،فضل الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم لاسماعیل بن اسحاق القاضی:21 وسندہ صحیح ،سفیان الثوری صرح بالسماع )(الحدیث:38) وسیلے کی حقیقت سوال: عام طور پر بعضح لوگ توسل بالموتیٰ کا عقیدہ رکھتے ہیں،ان کے بارے