کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 693
"ﻫﺬا اﺳﻨﺎد ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺑﺎﻟﻀﻌﻔﺎء ،عطیۃ ﻣﺘﻔﻖ ﻋﻠﻰ ضعفہ وحجاج مدلس ومبشر ﺑﻦ عبید کذاب وبقیۃﻫﻮابن الولید یدلس تدلیس الشیوخ"
یہ سند ضعیف راویوں کے ساتھ مسلسل ہے، عطیہ(العوفی)کے ضعیف ہونے پر(بوصیری کے نزدیک )اتفاق ہے، حجاج (بن ارطاۃ)مدلس ہے اور مبشر بن عبید کذاب(جھوٹا)ہے اور بقیہ بن الولید تدلیس شیوخ (یعنی تدلیس تسویہ)کرتے تھے۔(زوائد ابن ماجہ ص175،ح373)
معلوم ہوا کہ یہ روایت مبشربن عبید کذاب کی وجہ سے موضوع ہے۔
لطیفہ:
ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے ہیثمی کے کلام پر ضرب تقسیم کرتے ہوئے یہ جھوٹا دعویٰ کر دیا ہے کہ طبرانی کی سند میں حجاج بن ارطاۃ اور عطیہ العوفی کے علاوہ دوسرا کوئی متکلم فیہ راوی نہیں ہے۔دیکھئے اعلاء السنن (7ص14ح1763)
دیوبندی تقلیدی بیچارے کیا کریں؟ ان کے پاس اہل حدیث کے خلاف صرف موضوع اور مردود روایتوں کے علاوہ اور کیا ہے؟
تیسری روایت:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جمعہ کے دن جو نماز پڑھے وہ چار رکعات جمعہ سے پہلے پڑھے اور چار رکعات جمعہ کے بعد۔‘‘ (النجاربحوالہ کنزالعمال ج7ص749، حدیث اور اہل حدیث، ص824)
یہ روایت بالکل بے سند ہے لہٰذامردود ہے۔سرفراز خان صفدر دیوبندی نے ایک روایت کے بارے میں کہا:’’اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے استدلال میں ان کے اثر کی کوئی سند نقل نہیں کی اور بے سند بات حجت نہیں ہو سکتی ۔‘‘
(احسن الکلام ج1ص327،دوسرانسخہ ج1ص403)
اگر بے سند بات حجت نہیں ہو سکتی تو تقلیدی حضرات ابن النجار کی طرف منسوب یہ بے سند روایت کیوں پیش کررہے ہیں؟مزید تفصیل کے لیے دیکھئے مولانا محمد داود ارشد حفظہ اللہ کی کتاب: حدیث اور اہل تقلید (ج2ص601،602)
معلوم ہوا کہ تقلیدیوں کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی کوئی صحیح یا حسن حدیث نہیں جس سے یہ ثابت ہوتا کہ جمعہ کے فرضوں سے پہلے چار سنتیں موکدہ ہیں۔اس کے برعکس