کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 682
امام اوزعی رحمہ اللہ نے فرمایا: امام پر یہ حق ہے کہ وہ نماز شروع کرتے وقت تکبیر اولیٰ کے بعد سکتہ کرے اور سورۃ فاتحہ کی قراءت کے بعد ایک سکتہ کرے تاکہ اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے سورۃ فاتحہ پڑھ لیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہ (مقتدی )اسی کے ساتھ سورۃ فاتحہ پڑھے اور جلدی پڑھ کر ختم کرے۔پھر کان لگا کر سنے۔(کتاب القراء للبیہقی ص106ح 247وسندہ صحیح نصر الباری ص117) اتنے دلائل اور عظیم الشان اماموں کے عمل اور اقوال کے باوجود اگر کوئی شخص فاتحہ خلف الامام کے مسئلے میں اہل حدیث کو مطعون قراردیتا ہے تو وہ اپنے ایمان کی فکر کرے۔! فاتحہ خلف الامام پر بحث کرنے سے پہلے میری دونوں کتابوں نصر الباری اور الکواکب الدریہ کا مکمل جواب ضروری ہے۔ 6۔اہل حدیث کے نزدیک دو شرطوں کے ساتھ جرابوں پر مسح جائز ہے۔ اول: "ثخينين" (جرابیں موٹی ہوں) دوم: "لايشفان"(ان جرابوں میں جسم نظر نہ آئے) یہ شرائط قرآن حدیث سے نہیں بلکہ بعض سلف صالحین سے ثابت ہیں اور ہم کتاب و سنت کو سلف صالحین کے فہم سے ہی سمجھتے ہیں لہٰذا ہمیں ان دونوں شرطوں کا اقرارہے۔ یاد رہے کہ بعض دیوبندیوں کا یہ شرط لگانا کہ بغیر جوتی کے بارہ ہزار قدم چلنا ممکن ہو۔ اس قسم کی تمام شرائط بے دلیل اور بے ثبوت ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ فقہ حنفی کی بعض کتابوں میں مذکور ہے کہ امام ابو حنیفہ نے (جرابوں کے مسئلے میں) صاحبین کے قول پر رجوع کر لیا تھا(کہ جرابوں پر مسح جائز ہے)اور اسی پر فتویٰ ہے۔دیکھئے الہدایہ(ج1ص61) امام ابو حنیفہ کی ولادت سے پہلے امام سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا۔(دیکھئے امام ابن المنذرکی کتاب الا وسط ج1ص462وسندہ صحیح) دیگر دلائل وآثار کے لیے دیکھئے میری کتاب ’’ہدیۃ المسلمین ‘‘(حدیث نمبر4)