کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 678
(براہین قاطعہ ص195)
تفصیل کے لیے دیکھئے تعداد رکعات (ص107۔111)
یہ کہنا کہ’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں حد سے تجاوز کیا ہے۔‘‘ معترض سائل کا جھوٹ اور بہتان ہے جس کا حساب اسے اللہ تعالیٰ کے دربار میں دینا ہو گا۔‘‘ ان شاء اللہ۔
ہم اعلان کرتے ہیں کہ’’ ہم تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو عدول اور اپنا محبوب مانتے ہیں ۔تمام صحابہ کو حزب اللہ اور اولیاء اللہ سمجھتے ہیں۔ ان کے ساتھ محبت کو جزو ایمان سمجھتے ہیں۔ جو ان سے بغض رکھتا ہے ہم اس سے بغض رکھتے ہیں۔‘‘
(دیکھئے میری کتاب:جنت کا راستہ ص4مطبوعہ 1415ھ علمی مقالات ج 1ص27)
سیدنا عمر الفاروق خلیفہ راشد رضی اللہ عنہ تو جلیل القدر صحابی اور قطعاً جنتی ہیں لہٰذا ان سے محبت کرنا اور ان کا احترام کرنا ہمارا جزو ایمان ہے۔اے اللہ! سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت پر ہمیں زندہ رکھ اور اسی عقیدے پر ہمارا خاتمہ فرما۔ آمین
یہ کہنا کہ’’آٹھ رکعات تراویح مانتے ہیں‘‘ کوئی عیب والی بات نہیں ہے کیونکہ آٹھ رکعات کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور سید نا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے۔انور شاہ کشمیری دیوبندی نے کہا: اور اسے تسلیم کیے بغیر کوئی چھٹکارا نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح آٹھ رکعات تھی۔الخ(العرف الشذی ج1ص166تعداد رکعات ص110)
نیز دیکھئے صحیح بخاری (ج 1ص269ح2013عمدۃ القاری ج11ص128، تعداد رکعات ص15)
سیدنا امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعات پڑھائیں۔الخ۔
(مؤطا امام مالک ج1ص114،آثار السنن ص250ح 775وقال: واسنادہ صحیح)
اس فاروقی حکم والی روایت کے بارے میں نیموی تقلیدی نے کہا:اور اس کی سند صحیح ہے۔(آثار السنن دوسرا نسخہ ص392)
باقی بارہ یا اس سے زیادہ رکعات کے بارے میں عرض ہے کہ یہ رکعتیں نہ تو رسول