کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 677
اس قول میں ’’ الناس ‘‘ یعنی لوگوں سے مراد عوام ہیں جیسا کہ ظاہر ہے۔ معلوم ہوا کہ سائل کا پہلا اعتراض اور اس پر تقلیدی مفتیوں کا جواب دونوں مردود ہیں۔ 2۔اہل حدیث کا یہ موقف ہے کہ دبر(یا قبل)سے ہوا خارج ہونے کے ساتھ وضو ٹوٹ جاتا ہےجیسا کہ راقم الحروف نے کئی سال پہلے ایک سوال کے جواب میں لکھا تھا: ’’ان احادیث سے معلوم ہوا کہ انسان کی ہوا نکلنے کے ساتھ اس کا وضو فوراً ٹوٹ جاتا ہے۔چاہے یہ ہوا آواز سے نکلے یا بے آواز نکلے۔ چاہے بدبو آئے یا نہ آئے، چاہے معمولی پھسکی ہو یا بڑا پاد،چاہے دبر سے نکلے یا قُبل سے ان سب حالتوں میں یقیناً وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اور یہی اہل حدیث کا مسلک ہے۔‘‘ (ماہنامہ الحدیث 2ص29جولائی 2004ء) معلوم ہوا کہ معترض سائل نے اہل حدیث پر جو الزام لگایا ہے وہ غلط ہے۔ اہل حدیث کے نزدیک نیندسے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ دیکھئے سنن الترمذی (3535وقال:’’حسن صحیح‘‘)اور میری کتاب ’’مختصر صحیح نماز نبوی ‘‘ (طبع سوم ص8فقرہ 13) 3۔آٹھ رکعات تراویح کے سنت ہونے کا اعتراف حنفی اور دیوبندی ’’علماء‘‘ نے بھی کر رکھا ہے، مثلاً ابن ہمام نے کہا: اس سب کا حاصل یہ ہے کہ قیام رمضان گیارہ رکعات مع وتر جماعت کے ساتھ سنت ہے۔ (فتح القدیر ج1ص407میری کتاب :تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ، ص108) ابن نجیم مصری نے ابن ہمام حنفی سے بطور قرار نقل کیا کہ’’ پس اس طرح ہمارے مشائخ کے اصول پر ان میں سے آٹھ (رکعتیں ) مسنون اور بارہ مستحب ہو جاتی ہیں۔‘‘ (البحر الرائق، ج2ص67) طحطاوی نے کہا: کیونکہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیس نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ پڑھی ہیں۔(حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار ،ج1ص295) خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی نے اعلان کیا: ’’اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو بالا اتفاق ہے اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے۔‘‘