کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 674
پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم فتوے دیں گے، وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
(صحیح بخاری ج 1ص20ح 100،واللفظ لہ صحیح مسلم ج2 ص340ح 2673،ترقیم دارالسلام: 6796)
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ مفتی کو درج ذیل باتوں کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے:
1۔سائل کے سوال کی تحقیق کر کے جواب دے، بالخصوص اس وقت تحقیق انتہائی ضروری ہے جب سائل کسی شخص یا گروہ پر الزامات لگا کر جواب یا فتوی طلب کرے۔
2۔بغیر علم کے فتوی نہیں دینا چاہیے۔
3۔ہمیشہ عدل وانصاف کی تراز وقائم کر کے غیر جانبداری کے ساتھ حق وانصاف والا جواب دینا چاہیے۔
یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ لوگوں کو چاہیے کہ قرآن وحدیث پر عمل کرنے والے صحیح العقیدہ مفتیوں سے مسئلے پوچھیں اور بے علم جاہلوں سے دور رہیں۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کا مفصل اور جامع جواب پیش خدمت ہے:
1۔امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بن زوطی الکوفی الکابلی رحمہ اللہ کو ماننے اور نہ ماننے کا مطلب کیا ہے؟ اگر ماننے سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک عالم تھے جو دوسری صدی ہجری میں فوت ہوئے تو عرض ہےکہ تمام اہل حدیث اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے وجود کا ثبوت تو تواتر سے ثابت ہے۔ مثلاً دیکھئے التاریخ الکبیر للبخاری(8؍81ت2253)کتاب الکنیٰ للامام مسلم (مخطوط مصورص31؍107)اور عام کتب الرجال:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا: "ما رأيت أحدا أكذب من جابر الجعفي ولا أفضل من عطاء بن أبي رباح"
’’میں نے جابر الجعفی سے زیادہ جھوٹا کوئی نہیں دیکھا اور عطاء بن ابی رباح سے زیادہ افضل کوئی نہیں دیکھا۔‘‘(علل الترمذی مع شرح ابن رجب ج1ص69)
اگر ماننے سے مراد امام ابو حنیفہ کی تقلید کرنا ہے تو عرض ہے کہ دیوبندی اور بریلوی بلکہ حنفی حضرات اپنے قول و عمل کے ساتھ ائمہ ٔ ثلاثہ (امام مالک ،امام شافعی ، امام احمد بن حنبل