کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 669
رکعات تراویح اور دعویٔ اعظمی
سوال: جناب حبیب الرحمٰن اعظمی صاحب نے اپنی کتاب’’رکعات تراویح‘‘ میں بیس رکعات تراویح پر اجماع کا دعوی کرتے ہوئے لکھا ہے:’’ اس دعوے کو توڑنے کے لیے سارا زور صرف کرنے کے بعد اس کے سوااور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا ایک قول گیارہ کا ہے لیکن اگر مطالبہ کر دیا جائے کہ امام مالک رحمہ اللہ کی طرف اس قول کو منسوب کرنے کی کونسی قابل اعتماد سند ہے۔ ان کے کس شاگرد نے اس کو روایت کی ہے اور وہ روایت کس مستند تصنیف میں ہے تو عجب نہیں کہ دن میں تارے نظر آنے لگیں۔‘‘ (ص76)
جناب اعظمی صاحب کی یہ تعلی اور چیلنج کہاں تک صحیح ہے؟(ایک سائل)
الجواب: حافظ ابو محمد عبد الحق بن عبد الرحمٰن الاشبیلی رحمہ اللہ (متوفی581ھ) نے لکھا ہے:
"وقال اشہب بن عبد العزیز عن مالك : الذي آخذ بہ لنفسی فی قیام رمضان ہو الذي جمع عليه الناس عمر بن الخطاب إحدى عشرة ركعة ، وهي صلاة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ، ولا أدري من أين أحدث هذا الركوع الكثير ؟ ذکرہ ابن مغیث "
(کتاب التہجد لعبد الحق الاشبیلی دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، ص176فقرہ 890،دوسرا نسخہ ص287،دارالوفاء للطباعۃ والنشر والتوزیع)
حافظ عبدالحق(ابن الخراط)صاحب احکام کبری وصغری کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:"الامام الحافظ البارع المجود العلامة" (سیرا علام النبلاءج21ص198)
حافظ الابار نے کہا:" كان فقيها، حافظا، عالما بالحديث وعلله، عارفا بالرجال۔۔۔۔الخ" (ایضاً ص199)
امام ابو الولید یونس بن عبد اللہ بن محمد بن مغیث القرطبی رحمہ اللہ (متوفی 429ھ) کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا:
"الإمام الفقيه المحدث شيخ الأندلس قاضي القضاة بقية الأعيان" (سیرا علام النبلاءج17ص569)
ان کا شمار مالکی فقہاء میں ہوتا ہے۔(دیکھئے ’’الدیباج المذہب فی علماء المذہب‘‘ ج2ص374،376)