کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 662
1۔ام علقمہ مرجانہ رحمہا اللہ: ان سے علقمہ بن ابی علقمہ(ثقہ)اور بکیر بن الاشج (ثقہ)دوراویوں نے حدیث بیان کی۔ دیکھئے تہذیب التہذیب (12؍457دوسرا نسخہ 12؍478) حافظ ابن حبان البستی رحمہ اللہ نے انھیں کتاب الثقات (5؍466)میں ذکر کیا اور صحیح ابن حبان (الاحسان : 3740)میں ان سے حدیث بیان کی۔ معتدل امام عجلی رحمہ اللہ نے فرمایا: "مدنیہ تابعیۃ ثقہ"وہ مدینے کی تابعیہ ثقہ تھیں۔(معرفۃ الثقات 2؍461ح 23640) امام ابن خزیمہ(صحیح خزیمہ4؍335ح3018،4؍362ح3079)امام ترمذی (السنن :876)حاکم 1؍488ح 1794) اور ذہبی نے ان کی بیان کردہ حدیث کو صحیح قرار دیا۔ امام امالک نے المؤطا (1؍242ح576)میں ان سے روایت لی۔ شیخ البانی نے ایک راوی ضبہ بن محصن کے بارے میں کہا:"وكذلك وثقه كل من صحح حديثه۔۔۔"’’اور اسی طرح ہر اس نے اسے ثقہ قراردیا ہے جس نے اس کی حدیث کو صحیح کہا ہے۔(السلسلۃ الصحیحہ 7؍16ح3007) معلوم ہوا کہ مرجانہ کو عجلی، ابن احبان ، ترمذی ، ابن خزیمہ ، اور حاکم نے ثقہ قراردیا ہے۔ ذہبی کی جرح (لا تعرف ) ان کی توثیق سے معارض ہو کر ساقط ہے۔ رہا حافظ ابن حجر کا اسے مقبولہ یعنی مجہولہ الحال کہنا تو یہ جمہور کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے۔ شیخ البانی پر تعجب ہے کہ عجلی ، ابن احبان ، ترمذی ، ابن خزیمہ ، اور حاکم کی توثیق کے باوجود مرجانہ مذکورہ کو مجہولہ سمجھتے تھے۔! فائدہ: تحریر تقریب التہذیب میں لکھا ہوا ہے: " بل:صدوقة حسنة الحديث" بلکہ وہ سچی تھیں ،ان کی حدیث حسن ہے۔ (4؍433ت8680) 2۔عبد الرحمٰن بن ابی الزناد رحمہ اللہ جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث تھے۔ دیکھئے میری کتاب’’نور العینین‘‘(ص115۔116) 3۔اسماعیل بن ابی اویس بقول راجح ضعیف راوی تھا لیکن امام بخاری کی اس سے روایت