کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 660
ذبح کر دی جائے۔(المؤطا روایۃ یحییٰ بن یحییٰ 2؍501ح 1107وسندہ صحیح)
عبد اللہ بن عبید اللہ بن ابی ملیکہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ (سیدنا )عبد الرحمٰن بن ابی بکر ( رضی اللہ عنہ ) کا بیٹا پیدا ہوا تو (ان کی بہن )عائشہ( رضی اللہ عنہا )سے کہا گیا:اے اُم المومنین!آپ اس کی طرف سے اونٹ ذبح کریں۔انھوں نے فرمایا:معاذ اللہ! لیکن (وہ ذبح کریں گے)جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دو سالم برابر بکریاں۔
(السنن الکبری للبیہقی 9؍301وسندہ صحیح )
2۔محمد بن حسن الشیبانی نے قاضی ابو یوسف سے ،ان نے (امام )ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ"ولا يعق عن الغلام ولاعن الجارية" نہ تو لڑکے کی طرف سے عقیقہ کرنا چاہیے اور نہ لڑکی کی طرف سے۔(الجامع الصغیر ص534)
یہ سند صحیح نہیں ہے، لہٰذا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے یہ قول ثابت نہیں ہے۔اس کے باوجود ملا کاسانی نے بدائع الصنائع (5؍69) میں اسی کی حمایت کی ہے اور فتاوی عالمگیری (5؍362)میں لکھا ہوا ہے کہ یہ اس کے مکروہ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔!
نیز دیکھئے المؤطا المنسوب الیٰ محمد الیٰ محمد بن الحسن الشیبانی ص88،89
غلام رسول سعیدی بریلوی لکھتے ہیں:’’احادیث صحیحہ میں عقیقہ کی فضیلت اور استحباب کو بیان کیا گیا ہے لیکن غالباً یہ احادیث امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور صاحبین کو نہیں پہنچیں ، کیونکہ انھوں نے عقیقہ کرنے سے منع کیا ہے۔‘‘ (شرح صحیح مسلم ج1ص43)
سعیدی صاحب مزید لکھتے ہیں :’’اگر کوئی شخص تقلید محض کی پستی سے نہیں نکلا تو اس کو عقیقہ کرنے سے منع کرناچاہیے یا کم ازکم یہ کہنا چاہیے کہ عقیقہ مباح ہے اور کارثواب نہیں ہے اور اس کو یہ نہیں چاہیے کہ امام اعظم کے قول کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر یہ کہے کہ امام اعظم کے نزدیک عقیقہ سنت ہے لیکن سنت موکدہ یا سنت ثابتہ نہیں ہے۔ اور اگر وہ میدان تحقیق میں وارد ہے تو اس کو یہ کہنا چاہیے کہ عقیقہ سنت اور مستحب ہے کیونکہ احادیث صحیحہ میں اس کا ثبوت ہے اور تمام امت نے ان احادیث کو قبول کیا ہے اور امام اعظم کو یہ احادیث نہیں پہنچیں ورنہ وہ عقیقہ کو مکروہ نہ کہتے کیونکہ اس زمانہ میں نشرواشاعت کے ذرائع اور وسائل