کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 659
جیسا کہ مولوی غلام رسول سعیدی بریلوی نے شرح صحیح مسلم جلد نمبر 1صفحہ نمبر 43تا 45فرید بک سٹال لاہور میں وضاحت کی ہے۔کیا عقیقے میں اونٹ یا گائے کے اندر حصہ ڈال کر عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے علاقے میں احناف یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ اونٹ اور گائے میں قربانی کی طرح عقیقے کے بھی سات، پانچ، چار وغیرہ حصے ڈالے جا سکتے ہیں؟
کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ۔(خرم ارشاد محمدی )
الجواب:
1۔عقیقہ کرنا سنت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْسُكَ عَنْ وَلَدِهِ ، فَلْيَنْسُكْ عَنْهُ ، عَنِ الْغُلامِ شَاتَانِ مُكَافَأَتَانِ ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ "
’’جو شخص اپنی اولاد کی طرف سے قربانی (عقیقہ )کرنا پسند کرے تو وہ قربانی کر لے ۔لڑکے کی طرف سے دو برابر بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔‘‘(سنن النسائی7؍163)ح 4217)و سندہ حسن ،مسند احمد 2؍182ح 6713وسندہ حسن وصححہ الحاکم 4؍238ح7692) و وافقہ الذہبی)
اس حدیث میں’’ پسند کرے‘‘کے الفاظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عقیقہ کرنا واجب نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔ دیکھئے التمہید للحافظ ابن البر(4؍311)
نیز دیکھئے مؤطا امام مالک بتحقیقی (روایۃ عبد الرحمٰن بن القاسم :158)
حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"فأمّا أهل الحديث قاطبةً، وفقهاؤهم، وجمهور أهل السّنة، فقالوا: هي من سنّة رسول اللّٰه صلّى اللّٰه عليه وسلّم "
’’تمام اہل حدیث، ان کے فقہاء اور جمہور اہل سنت کہتے ہیں:یہ(عقیقہ )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔‘‘
(تحفۃ الودودباحکام المولود ص28الفصل الثالث فی ادلۃ الاستحباب )
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا :عقیقہ واجب نہیں ہے لیکن اس پر عمل مستحب ہے اور ہمارے ہاں(مدینہ میں)لوگوں کا اسی پر عمل جاری رہا ہے۔(المؤطا روایۃ یحییٰ 2؍502)ح1109)
ابراہیم بن حارث بن خالد التیمی رحمہ اللہ عقیقے کو مستحب سمجھتے تھے اگرچہ ایک چڑیا ہی کیوں نہ