کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 656
سوائے یہ کہ اس کا علم کتاب (قرآن) یا سنت (حدیث ) یا اجماع میں پایا جائے۔
(کتاب الطہورللامام ابی عبید ص124قبل ح 335)
اس طرح کے بے شمار حوالے کتب حدیث وغیرہ میں مذکور ہیں۔ برصغیر کے اہل حدیث علماء بھی اجماع کو حجت تسلیم کرتے ہیں ، مثلاً سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کے شاگرد حافظ عبد اللہ غازیپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’واضح رہے کہ ہمارے مذہب کا اصل الاصول صرف اتباع کتاب و سنت ہے۔‘‘
’’اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اہل حدیث کو اجماع امت و قیاس شرعی سے انکار ہے۔ کیونکہ جب یہ دونوں کتاب و سنت سے ثابت ہیں تو کتاب و سنت کے ماننے میں ان کا مانناآگیا۔‘‘
(ابراء اہل الحدیث والقرآن، باب: اہل حدیث کے اصول و عقائد ،ص32)
معلوم ہوا کہ اہل حدیث کے نزدیک ہر دور میں امت مسلمہ کا اجماع شرعی حجت ہے۔اجتہاد کا جواز کئی احادیث سے ثابت ہے، مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کو حکم دیا ۔
"لايصلين أحد العصر إلا في بني قريظة"
’’بنو قریظہ کے پاس پہنچنے سے پہلے عصر کی نماز کوئی نہ پڑھے۔‘‘
صحابہ کی ایک جماعت نے(اجتہاد کرتے ہوئے)راستے میں نماز پڑھ لی اور دوسرے گروہ نے بنو قریظہ جا کر ہی نماز پڑھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی برا نہیں کہا۔(صحیح بخاری :946صحیح مسلم :1770)
معلوم ہوا کہ نص (واضح دلیل: قرآن ،حدیث اور اجماع)نہ ہونے یا نص کے فہم میں اختلاف ہونے کی صورت میں اجتہاد جائز ہے لیکن یہ اجتہاد عارضی اور وقتی ہوتا ہے، اسے دائمی قانون کی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔
اجتہاد کی کئی اقسام ہیں، مثلاً:
1۔آثا ر سلف صالحین کو ترجیح دینا۔
2۔اولیٰ کو اختیار کرنا۔
3۔قیاس کرنا(نص کے مقابلے میں ہر قیاس مردود ہے۔)
4۔مصالح مرسلہ کا خیال رکھنا وغیرہ۔