کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 655
(یعنی اجماع ) پر ہے۔ (المستدرک للحاکم ج1ص116ح299وسندہ صحیح)
اس حدیث سے حاکم نیشاپوری نے اجماع کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قاضی شریح رحمہ اللہ کی طرف لکھ کر بھیجا تھا: اگر کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بھی نہ ملے تو دیکھنا کہ کس بات پر لوگوں کا اجماع ہے، پھر اسے لے لینا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج7ص240ح22980الدارمی169،ماہنامہ الحدیث حضرو:37ص48)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللّٰه حَسَنٌ ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللّٰه سَيِّئٌ "
’’تمام مسلمان جسے اچھا سمجھیں تو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے اور جسے تمام مسلمان برا سمجھیں تو وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے۔(المستدرک للحاکم 3؍78ح4465)و سندہ حسن و صححہ الحاکم و وافقہ الذہبی)
سیدنا ابو مسعود عقبہ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"أُوصِيكَ بِتَقْوَى اللّٰه ، وَلُزُومِ الجماعة ، فإن اللّٰه لا يجمع أمة محمد صلي اللّٰه عليه وسلم على ضلالة"
’’میں تجھے اللہ کے تقویٰ اور جماعت (اجماع)کے لازم پکڑنے کی وصیت کرتا ہوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔‘‘ (الفقیہ والمتفقہ للخطیب 1؍167،وسندہ صحیح)
امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب الرسالہ میں حجت اجماع پر دلائل ذکر کئے ہیں۔ دیکھئے ص471۔ 476فقرہ 1309تا 1320)
حافظ ابن حزم اندلسی اپنے غرائب وشذوذ کے باوجود اعلان فرماتے ہیں:
"أن الإجماع من علماء أهل الإسلام حجة وحق مقطوع به في دين اللّٰه عز وجل"
علمائے اہل اسلام کا اجماع حجت اور اللہ کے دین میں قطعی حق ہے۔(الاحکام فی اصول الاحکام جلد اول حصہ چہارم ص525)
امام بخاری رحمہ اللہ کے مشہور ثقہ استاذ امام ابو عبید القاسم بن سلام فرماتے ہیں:
"الا ان يوجد علمه في كتاب اوسنة او اجماع"