کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 654
الجواب: یہ بات بالکل صحیح ہے کہ کانے یا لنگڑے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أَرْبَعَةٌ لَا يَجْزِينَ فِي الْأَضَاحِيِّ : الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا ، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا ، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا ، وَالْكَسِيرَةُ الَّتِي لَا تُنْقِي ۔"
’’چار جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے: واضح طور پر کانا ،واضح طور پر بیمار ، صاف طور پر لنگڑا اور اتنا کمزور جانور کہ اس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔‘‘
(سنن ابی داود 2802،وسندہ صحیح و صححہ الترمذی : 1497،وابن خزیمہ: 2912وابن حبان:1046،1047،وابن الجارود 481،907والحالم 1؍467 و وافقہ الذہبی)
یہ اس حالت میں ہے جب قربانی کے لیے جانور خریدا جائے۔
اگر ان عیوب سے صاف ستھرا جانور برائے قربانی خریدا گیا ہو اور بعد میں اس میں کوئی عیب پیدا ہو جائے تو اس کے بارے میں سیدنا عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"ان كان اصابها بعد ما اشتر يتموها فأمضوها وان كان اصابها قبل أن تشتروها فأبدلوها"
’’اگر یہ نقص و عیب تمھارے خریدنے کے بعد واقع ہوا ہے تو اس کی قربانی کر لو اور اگر یہ نقص وعیب تمھارے خریدنے سے پہلے واقع ہوا تھا تو اس جانور کو بدل لو، یعنی دوسرےجانور کی قربانی کرو۔‘‘(السنن الکبری للبیہقی ،ج9ص289وسندہ صحیح)
اہل سنت کے مشہور ثقہ امام اور جلیل القدر تابعی امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"إِذا اشْترى الرجل اضحية فمرضت عنده او عرض لها مرض فهي جائزة۔"
’’اگر کوئی شخص قربانی کا جانور خریدے، پھر وہ اس کے پاس بیمار ہو جائے تو اس جانور کی قربانی جائز ہے۔‘‘ (مصنف عبدا لرزاق 4؍386ح8161وسندہ صحیح، دوسرا نسخہ :8192)
خلاصہ یہ کہ صورت مسئولہ میں قربانی والے جانور کی قربانی جائز ہے۔
الحمد للہ اہل حدیث اجماع امت کے حجت ہونے اور اجتہاد شرعی کے جائز ہونے کے قائل ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"لَا يَجْمَعُ اللّٰه أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ أَبَدًا وَيَدُ اللّٰه مَعَ الْجَمَاعَةِ"’’اللہ میری امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت