کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 652
روایت ان کی مرضی کے خلاف ہو تو اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ حسن لغیرہ کو ترک کرنے والے یہی لوگ ہوتے ہیں۔ صحیح تحقیق یہ ہے کہ ضعیف روایت ضعیف ہی رہتی ہےچاہے اس کی بہت سی سند یں ہوں اور صحیح روایت صحیح ہی ہوتی ہے چاہے اس کی صرف ایک ہی سند ہو۔حسن لغیرہ کو حجت سمجھنے والے اپنے مخالفین کی ایسی بہت سی روایتوں کو رد کر دیتے ہیں جو ان لوگوں کے اپنے اصول پر بھی حسن لغیرہ ہی بنتی ہیں۔!!
موقوف روایت: علی بن الجعد فرماتے ہیں:
"حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، أنا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰه قَالَ: «إِذَا كُنْتُمْ ثَلاثَةً فِي سَفَرٍ، فَأَمِّرُوا أَحَدُكُمْ، ۔۔۔۔۔۔۔"
(سیدنا) عبد اللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ )نے فرمایا:اگر تم سفر میں تین آدمی ہو تو ایک کو امیر بنا لیا کرو۔(مسند علی بن الجعد 1؍372،ح443 وسندہ صحیح، دوسرا نسخہ :430)
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اسے طبرانی نے عمرو بن مرزوق:"انا شعبۃ الخ"کی سند سے بیان کیا ہے۔(دیکھئےالمعجم الکبیر9؍208ح 8915)
جلیل القدر صحابی کے اس فتوے سے معلوم ہوا کہ سفر میں امیر بنانا جائز ہے۔
تنبیہ:سفر میں امارت کے جواز پر قیاس کر کے کاغذی تنظیمیں بنانا اور اپنی تنظیم یا پارٹی کا امیر بن کر بیٹھ جانا اور پھر یہ دعویٰ کرنا کہ جس نے ہمارے امام یا امیر کی بیعت نہ کی تو وہ جاہلیت کی موت مر جائے گا۔ بہت بڑا دھوکا اور فراڈ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مسلمانوں کو کاغذی و نام نہاد تنظیموں ،پارٹیوں اور کاغذی امیروں سے محفوظ رکھے جو خلافت اور امارت کبری والی روایات و دلائل کو اپنے آپ پر فٹ کر دیتے ہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تجھے کیا پتا ہے کہ امام کسے کہتے ہیں ؟ جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہو جائے، ہر آدمی یہی کہے کہ یہ امام (خلیفہ)ہے۔
(سوالات ابن ہانی: 2011الحدیث 26ص29،علمی مقالات ج1ص403) (10؍جولائی 2008ء)
(الحدیث :53)