کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 646
والے حجرہ میں بیٹھنا چاہیے۔ "كَانَ رَسُولُ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ صَلَّى الْفَجْرَ ثُمَّ دَخَلَ مُعْتَكَفَهُ"
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو صبح کی نماز پڑھ کر جائے اعتکاف میں داخل ہو جاتے ۔ دیکھئے صحیح مسلم (1173،دارالسلام :2785)
19۔اس کے ناجائز ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ جائے اعتکاف میں یہ امور انجام دے۔
20۔معتکف کے لیے جائز ہےکہ جب چاہے غسل کرے۔شریعت میں اس کی ممانعت منقول نہیں ہے تاہم اسے مسجد میں موجود غسل خانہ میں ہی غسل کرنا چاہیے ۔ اس کا احاطہ ٔ مسجد سے شرعی عذر کے بغیر نکلنا صحیح نہیں ہے۔
21۔میرے علم میں ان دو رکعتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ واللہ اعلم
22۔مسنون یہی ہے کہ عقیقہ میں بکری (بکرا)اور بھیڑ(نریا مادہ )ذبح کئے جائیں۔گائے یا اونٹ وغیرہ کا عقیقہ میں ذبح کرنا ثابت نہیں ہے۔چہ جائیکہ اسے حصوں میں تقسیم کیا جائے جس روایت میں ہےکہ "فليعق عنه من الإبل أو البقر أو الغنم" یعنی اس کی طرف سے اونٹ ،گائے اور بکریاں عقیقہ میں ذبح کی جا سکتی ہیں۔ (المعجم الصغیر للطبرانی 1؍84)
اس کی سند مسعدہ بن الیسع وغیرہ کی وجہ سے موضوع و باطل ہے۔
اُ م المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ عبد الرحمٰن بن ابی بکر کے بچے کی طرف سے ایک اونٹ بطور عقیقہ ذبح کریں تو انھوں نے فرمایا:"معاذ اللّٰه ولكن ما قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: شاتان مكافأتان" یعنی میں(اس بات سے)اللہ کی پناہ چاہتی ہوں لیکن (میں وہ کروں گی)جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دو بکریاں کافی ہیں۔
(السنن الکبری للبیہقی ج9ص301وسندہ حسن تحفۃ الاخیار 6؍428ح 2516و سندہ حسن مشکل الآثار للطحاوی 3؍68،ح 1042و سندہ حسن الکامل لابن عدی 5؍1962دوسرا نسخہ 7؍15)
اس روایت سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں مثلاً :
(الف) گائے اور اونٹ وغیرہ کو بطور عقیقہ ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔