کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 644
پڑھنا افضل ہے۔سنن ابی داؤد (ح1070)کی روایت میں آیا ہے کہ " صلى العيد ثم رخص في الجمعة، فقال: (من شاء أن يصلي فليصل" آپ نے نماز عید پڑھی، پھر نماز جمعہ میں رخصت دے دی اور فرمایا:جو شخص نماز جمعہ پڑھنا چاہے پڑھ لے۔
اس کی سند حسن ہے،اسے ابن خزیمہ (1464)حاکم اور ذہبی (المستدرک ج1ص288)نے صحیح کہا ہے۔ ایاس بن ابی رملہ جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق اور حسن الحدیث راوی ہیں۔ احکام العیدین للفریابی( ص211تا 218)میں اس کے بہت سے شواہد موجود ہیں۔
10۔یہ رکعتیں اور دیگر سنن و نوافل دودو کر کے پڑھی جائیں کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ :
"صلاة الليل والنهار مثنى مثنى" رات اور دن کی(نفل ) نماز دودورکعت ہے۔(سنن ابی داود :1295وسندہ حسن)
اسے ابن خزیمہ (1210) اور ابن حبان (الموارد رحمہ اللہ 636)نے صحیح قراردیا ہے۔
علوم الحدیث للحاکم (ص58) میں حسن شاہد اور السنن الکبری للبیہقی (ج2ص487) میں اس کا صحیح موقوف شاہد ہے۔
علی بن عبد اللہ البارقی جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہیں لہٰذا حسن الحدیث راوی ہیں اور اس کا تفرد چنداں مضر نہیں ہے۔
11۔دودو کر کے پڑھی جائیں۔ دیکھئے نمبر10۔
12۔طلوع آفتاب، زوال اور غروب آفتاب کو ملحوظ رکھتے ہوئے سجدۂ تلاوت کرنا بہتر ہے۔ سجدۂ تلاوت سنت ہے، واجب یا فرض نہیں ہے۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم سنی اور سجدہ نہیں کیا۔
(صحیح بخاری ج1ص146ح 1072،صحیح مسلم ج1ص 215ح 577)
مزید تفصیل کے لیے دیکھئے ماہنامہ شہادت (ج 6شمارہ 5مئی 1999ء،سوال و جواب، قرآن و سنت کی روشنی میں ص29) کا مطالعہ کریں۔سجدۂ تلاوت بعد میں کرنا بھی جائز ہے۔ واللہ اعلم۔