کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 643
درمیان ہاتھ کھلے چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے چونکہ یہ حالت قیام ہے اس لیے بارگاہ ایزدی میں دست بستہ ہی کھڑا ہو نا چاہیے۔‘‘ (حی علی الصلوٰۃ ص153،154) 5۔میرے علم میں یہ عمل ثابت نہیں ہے۔واللہ اعلم 6۔یہ مسئلہ اجتہادی ہے۔دعا مانگنا ثابت ہے لیکن مقتدیوں کا امام کے ساتھ ہاتھ اٹھا کردعا مانگنا ثابت نہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہاتھ بلند کر کے اجتماعی دعا نہ مانگی جائے۔ 7۔اس کا کوئی ثبوت میرے علم میں نہیں "تَقَبَّلَ اللّٰه مِنَّا وَمِنْكُمْ" والی دعا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔ اسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نےحسن اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے جید کہا ہے۔(فتح الباری ج2ص446الجوہر التقی ج3 ص320) مجھے ان آثار کی سند نہیں ملی۔ واللہ اعلم علی بن ثابت الجزری سے روایت ہے کہ میں نے(امام )مالک بن انس ( رحمہ اللہ )سے پوچھا:لوگ عید کے دن "تَقَبَّلَ اللّٰه مِنَّا وَمِنْكُمْ"کہتے ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا:"مازال ذلك الأمر عندنا ما نرى به بأسا" ’’ہمارے ہاں اسی پر مسلسل عمل ہے۔ ہمارے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ (کتاب الثقات لا بن حبان 9؍90وسندہ حسن) 8۔حافظ ابن حجران تکبیرات کے بارے میں لکھتے ہیں :’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے جو صحیح ترین روایت مروی ہے وہ علی رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول (وفعل ) سے مروی ہے۔‘‘ (ملخصافتح الباری ج2ص462) علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ آپ عرفات کے دن (9؍ذوالحجہ )صبح کی نماز کے بعد تکبیریں شروع کرتے اور آخری یوم تشریق(13؍ذوالحجہ )کی عصر تک پڑھتے تھے، اس دن مغرب کے بعد نہیں پڑھتے تھے۔دیکھئے السنن الکبری للبیہقی (ج3ص 314 و سندہ صحیح ) وصححہ الحاکم والذہبی (ج1ص299المستدرک ) 9۔عید اگر جمعہ کے دن ہو تو نماز عید پڑھنے کے بعد، اس دن جمعہ کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے،لہٰذا اختیار ہے کہ نماز جمعہ پڑھیں یا نماز ظہر لیکن نبوی عمل کی روشنی میں اس دن نماز جمعہ