کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 641
الجواب: آپ کے سوالات کے مختصر اور جامع جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں: 1۔جہری نمازوں میں بھی مقتدی پر سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب (یعنی فرض)ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہری نماز کے مقتدیوں کو فرمایا: "فَلا تَفْعَلُوا إِلا بِأُمِّ الْقُرْآنِ , فَإِنَّهُ لا صَلاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا " تم سوائے سورۂ فاتحہ کے اور کچھ بھی نہ پڑھو، کیونکہ جو شخص سورۂ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔ (کتاب القراءت للبیہقی ص64ح121،وقال البیہقی : وھذا اسناد صحیح ورواتہ ثقات) اس حدیث کے راوی نافع بن محمود جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں، لہٰذا بعض علماء کا انھیں مجہول یا مستور کہنا غلط و مردود ہے۔ دیکھئے میری کتاب’’ الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الجہریۃ‘‘ فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ پر مزید تفصیل کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ مفید ہے۔جزء القراءت للبخاری ، کتاب القراءت للبیہقی تحقیق الکلام لعبدالرحمٰن المبارکفوری رحمہ اللہ ۔ 2۔یہ روایت صحیح ابن خزیمہ رحمہ اللہ (ج3ص58ح1622)میں یحییٰ بن ابی سلیمان عن زید عن ابی العتاب وابن المقری عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کی سند سے موجود ہے۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "فی القلب من هذا الإسناد فإني كنت لا أعرف يحيى بن أبي سليمان بعدالة ولا جرح" ’’دل اس سند پر مطمئن نہیں ہے کیونکہ یحییٰ بن سلیمان کو جرح تعدیل کی روسے میں نہیں جانتا ۔‘‘ صحیح ابن خزیمہ کے علاوہ یہ روایت سنن ابی داؤد (893)سنن دارقطنی ، سنن بیہقی اور مستدرک الحاکم (ج1ص216،273 ، 274و صححہ و وافقہ الذہبی و خالفہ مرۃ اُخری ) میں بھی یحییٰ بن ابی سلیمان کی سند سے موجود ہے۔ راقم الحروف نے سنن ابی داودکے حاشیہ ’’نیل المقصودفی التعلیق علی سنن ابی داود ج1ص2881قلمی) میں یہ ثابت کیا ہے کہ یحییٰ مذکور جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے" منکر الحدیث" کہا ہے۔ (جزء القراءت للبخاری 239،نصرالباری ص261،262،ح 239)