کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 64
البلقینی سے ابن عربی کے بارے میں پوچھا توا نھوں نے فوراً جواب دیا کہ وہ کافر ہے۔ (لسان المیزان ج4 ص319 ،دوسرا نسخہ 5 ص213 ،تنبیہ الغبی الی تکفیر ابن عربی للمحدث البقاعی رحمہ اللہ ص 159) ابن عربی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا ایک گمراہ شخص سے مباہلہ بھی ہوا تھا جس کا تذکرہ آگے آرہا ہے۔ان شاءاللہ 2۔حافظ ابن دقیق العید نے ابومحمد عز الدین عبدالعزیز بن عبدالسلام السلمی الدمشقی الشافعی رحمہ اللہ (متوفی 660ھ) سے ابن عربی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: "شيخ سوء كذاب مقبوح يقول بقدم العالم ولا يرى تحريم فرج" گندا،کذاب(اور)حق سے دُور(تھا) وہ عالم کے قدیم ہونے کا قائل تھا اور کسی شرمگاہ کو حرام نہیں سمجھتا تھا۔الخ (الوافی بالوفیات ج4ص 125،وسندہ صحیح تنبیہ الغبی ص138) ابن عبدالسلام کا یہ قول درج ذیل کتابوں میں بھی دوسری سندوں کے ساتھ مذکور ہے: (تنبیہ الغبی ص 139 ،وسندہ حسن) مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ(ج 2 ص244 وسندہ حسن)میزان الاعتدال(3؍659)لسان المیزان(5؍311،312 ،دوسرا نسخہ 6؍398) تنبیہ:الوافی بالوفیات میں کاتب کی غلطی سے"ابی بکر بن العربی"چھپ گیا ہے جبکہ صحیح لفظ ابی بکر کے بغیر’’ابن عربی‘‘ہے۔ 3۔ثقہ اور جلیل القدر امام ابوحیان محمد بن یوسف الاندلسی رحمہ اللہ (متوفی 745ھ) نے فرمایا: "ومن ذهب من ملاحدتهم إلى القول بالاتحاد والوحدة ، كالحلاج والشوذي وابن أحلى وابن عربي المقيم بدمشق وابن الفارض ، وأتباع هؤلاء كابن سبعين و التستري تلميذه وابن المطرّف المقيم بمرسية والصفّار المقتول بغرناطة وابن اللباج وابوالحسن المقيم بلورقة ، وممن رأيناه يُرمى بهذا المذهب الملعون العفيف التلمساني.....الخ" اور ان کے ملحدین میں سے جو اتحاد اور وحدت(یعنی وحدت الوجود) کاقائل ہے جیسے (حسین بن منصور)الحلاج،شوزی،ابن احلی ،ابن عربی جو دمشق میں مقیم تھا،ابن فارض اور