کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 622
لیکن اس خاص روایت میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں اور ان کی عام روایتیں تابعین سے ہیں یعنی وہ تابعین عن الصحابہ سے روایت کرتے ہیں اور اس سند میں انھوں نے سماع کی تصریح نہیں کی، لہٰذا اس سند میں انقطاع کا شبہ ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تحقیق کی ہے ،لہٰذا اسے حسن قراردینا صحیح نہیں ہے۔ والعلم عند اللّٰه عزوجل (شہادت اکتوبر 2003ء)
بیمار کا حمام میں نہانا؟
سوال: بیماروں کے لیے حمام میں نہانا مفید ہوتا ہے۔
(مجمع الزوائد کتاب الطہارۃ باب فی الحمام والنورۃ 1؍388ح 1519،ونسخہ مشہورہ 1؍277)
یہ روایت کیسی ہے؟(محمد محسن سلفی، کراچی)
الجواب: روایت مذکورہ، اس مفہوم کے ساتھ المعجم الکبیر للطبرانی(11؍25،26،
ح10926) میں موجود ہے۔ اس کا راوی یحییٰ بن عثمان التیمی ضعیف ہے۔
(التقریب : 6،760)وضعفہ الجمہور )
یہ روایت زوائد البزار میں شفاء مریض کے بغیر (ینقی الوسخ )کے الفاظ سے لکھی ہوئی ہے۔
(1؍162ح319) اس کی سند سفیان ثوری کی تدلیس (عن)کی وجہ سے ضعیف ہے۔
خلاصہ: روایت مسئولہ بلحاظ سند ضعیف ہے۔(شہادت، اگست 2004ء)
سوال: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ جب حمام میں جاتے نہلانے والا آپ کے بدن پر میل دور کرنے کی کوئی چیز ملتا تو وہ ناف تک پہنچتا تو آپ اس سے بھی کہہ دیتے "اخرج"باہر چلے جاؤ۔(مجمع الزوائد 1؍390ح1529)(محمد محسن سلفی کراچی)
الجواب: اس روایت کی سند مجھے معلوم نہیں ہے،مصنف عبد الرزاق (1؍291،292) و موسوعۃ فقہ عبد اللہ بن عمر (ص308) میں اس کے معنوی شواہد ہیں۔ ابن ابی شیبہ (1؍109ح1165)نے صحیح سند کے ساتھ عبد اللہ بن عمر سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا:
"لاتدخل الحمام فانه مما احدثوا من النعيم"(تم حمام میں داخل نہ ہو کیونکہ