کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 617
ان کے مقابلے میں ابو عبید الآجری نے ابو داود سے نقل کیا کہ وہ کہتا تھا:
’’علی نے ابو بکر و عمر کے قتل پر اعانت کی ہے اور ابو داود اس کی مذمت کرتے تھے۔‘‘
یہ جرح کئی لحاظ سے مردود ہے:
1۔یہ جرح جمہور محدثین کی توثیق کے خلاف ہے۔
2۔ اس کا تعلق روایت حدیث سے نہیں بلکہ عقائد سے ہے۔
3۔ابو داؤد کی عبد اللہ بن سالم الاشعری سے ملاقات ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ان کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو گئے تھے، لہٰذا یہ قول منقطع ہے۔
4۔ابو عبید محمد بن علی بن عثمان الآجری کے حالات نامعلوم ہیں، سوالات الآجری کے محقق محمد علی قاسم العمری کو بھی اس کے حالات نہیں ملے۔(دیکھئے ص41)
5۔اس بات کا بھی کوئی صحیح ثبوت نہیں ہے کہ آجری نے یہ کلام بیان کیا ہے۔ کیونکہ آجری تک صحیح سند مفقود ہے۔
عمرو بن الحارث الحمصی کو ابن حبان نے’’مستقیم الحدیث ‘‘ کہا یعنی ثقہ قرار دیا۔(الثقات 8؍480)ابن خزیمہ، حاکم رحمہ ، دارقطنی اور بیہقی وغیرہم نے ان کی توثیق کی۔
کسی روایت کو صحیح یا حسن قراردینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ہر راوی صحیح یا حسن قراردینے والے کے نزدیک ثقہ یا صدوق ہے۔
(دیکھئے نصب الرایۃ ج1ص149،ج 3 ص264، لسان المیزان ج1ص227،ج 5ص414السلسلۃ الصحیحہ ج6ص660ح 2783 وج 7ص16 ح 3007۔بیان الوھم والا بھام لا بن القطان 5؍395ح 25،62)
جمہور کی اس تعدیل کے مقابلے میں ذہبی قول "غیر معروف العدالۃ"(میزان الاعتدال3؍251) اور ابن حجر رحمہ اللہ کا قول "مقبول"یعنی مجہول الحال مردود ہے۔ یاد رہے کہ ذہبی کا قول ان کی تصحیح حدیث سے معارض ہے۔
"واذا تعارضا تساقطا" (دیکھئے میزان الاعتدال 2؍552)
خلاصہ یہ کہ عمرو بن الحارث حسن الحدیث تھے۔