کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 61
ہے جب زیارت سے فارغ ہوکر میں باہر آیا اور جوتے پہننے کا قصد کیا تو سنا کہ کہتا ہے۔یا اللہ یاموجود اور دوسرا جو بیرون مسجد تھا کہتا تھا بل فی کل الوجود اس کو سن کر مجھ پر ایک حالت طاری ہوئی بعدہ،لڑکوں کو شغدف میں دیکھا کہ کھیل رہے ہیں اور ایک لڑکا کہہ رہا ہے اس سے میں نہایت بے تاب ہوااور کہا کہ کیوں ذبح کرتے ہو۔۔۔‘‘ (شمائم امدادیہ ص71،72،امداد المشتاق ص95 فقرہ:191) ہروجود میں اللہ کوموجود سمجھنا وحدت الوجود کابنیادی عقیدہ ہے۔ 9۔حاجی امداد اللہ تھانہ بھونوی کہتے ہیں: ’’ایک موحد سے لوگوں نے کہا کہ اگرحلواوغلیظ ایک ہیں تو دونوں کو کھاؤ انہوں نے بشکل خنزیر ہوکرگوہ کوکھالیا۔پھر بصورت آدمی ہوکرحلوا کھایا اس کو حفظ مراتب کہتے ہیں جو واجب ہے۔‘‘ (شمائم امدادیہ ص75،امداد المشتاق ص101 ،فقرہ :224 ،واللفظ لہ) شمائم کے مطبوعہ نسخے میں غلیظ کے بجائے غلیط لکھا ہوا ہے جس کی اصلاح امداد المشتاق سے کردی گئی ہے۔گُوہ پاخانے کو کہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وجودیوں کے نزدیک پاک وناپاک سب ایک ہے۔ 10۔ایک سوال کونقل کرتے ہوئے حاجی امداد اللہ صاحب لکھتے ہیں:’’سوال دوم۔۔۔اور دوسری جگہ ضیاء القلوب ہی میں ہے تاوقتیکہ ظاہر ومظہر میں فرق پیش نظر سالک ہے بوُئے شرک باقی ہے اس مضمون سے معلوم ہوا کہ عابد ومعبود میں فرق کرناشرک ہے۔‘‘ جواب دوم کوئی شک نہیں ہے کہ فقیر نے یہ سب ضیاء القلوب میں لکھا ہے اگر کہیں کہ جو کچھ کہا نہیں جاتاہے کیوں لکھا گیا جواب یہ ہے کہ اکابر دین اپنے مشکوفات کو تمثیلات محسوسات سے تعبیر کرتے ہیں تاکہ طالب صادق کوسمجھادیں نہ یہ کہ كانه‘هُوَ کہہ دیتے ہیں۔۔۔‘‘ (شمائم امدادیہ ص34،35) خلاصہ یہ کہ عابدومعبود کو ایک سمجھنا،اللہ تعالیٰ کو عرش پر مستوی نہ ماننا بلکہ اپنی ذات کے ساتھ ہرجگہ ہر وجود میں موجود ماننا اور حلولیت کاعقیدہ رکھنا مختصر الفاظ میں وحدت الوجود کہلاتا ہے۔