کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 608
ہیں اور شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے السلسلۃ الصحیحہ (ج 2ص347 تا 350 حدیث نمبر 719) میں انھیں ذکر کرکے اس روایت کو صحیح قراردیا ہے جو کہ اصول حدیث کی روسے صحیح نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے سفیان ثوری اور اعمش کی تدلیس کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ بے سود ہے۔ ثابت شدہ حقیقت کا انکار کرنا علمی میدان میں کوئی وزن نہیں رکھتا اور بعض لوگوں نے ان تمام ضعیف سندوں کو ملا کر اس حدیث کو حسن کا درجہ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے ،یہ بھی اصول حدیث کی روسے غلط ہے۔ حافظ ابن کثیر الدمشقی رحمہ اللہ فرمایا: "(قلت) يكفي في المناظرة تضعيف الطريق التي أبداها المناظر، وينقطع؛ إذ الأصل عدم ما سواها، حتى يثبت بطريق أخرى ، واللّٰه أعلم" میں نے کہا :مناظرہ میں مخالف جو سند پیش کرے اس کا ضعیف ثابت کر دینا ہی کافی ہے۔وہ لا جواب ہو جائے گا۔ کیونکہ اصل یہی ہے کہ اس روایت کے علاوہ دوسری کوئی سند نہیں الا یہ کہ دوسری سند سے یہ بات ثابت ہو جائے۔ واللہ اعلم(اختصار علوم الحدیث ص85نوع 22) خلاصہ یہ کہ یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے۔(شہادت ستمبر2001) خطبۂ حجۃ الوداع کے بارے میں تحقیق سوال: درج ذیل حدیث کی تحقیق فرمائیں: "وعن فضاله بن عبيد الانصاري عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أنه قال في حجة الوداع: إِنَّ هَذَا يَوْمٌ حَرَامٌ ، وَبَلَدٌ حَرَامٌ ، فَدِمَاؤُكُمْ ، وَأَمْوَالُكُمْ ، وَأَعْرَاضُكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ مِثْلَ هَذَا الْيَوْمِ وَهَذِهِ اللَّيْلَةِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ، وَحَتَّى دَفْعَةٍ يَدْفَعُهَا مُسْلِمٌ مُسْلِمًا يُرِيدُ بِهَا سُوءًا حَرَامٌ ، وَسَأُخْبِرُكُمْ مَنِ المُسْلِمُ ، مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ، وَالمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ ، وَالمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ الخَطَايَا وَالذُّنُوبَ ، وَالمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللّٰه تَعَالَى"