کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 606
ہوتی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
"فقلنا:لا نقبل من مدلس حديثا حتى يقول فيه : حدثنى او سمعت"
پس ہم نے کہا: ہم کسی مدلس کی کوئی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ حدثنی یا سمعت نہ کہہ دے۔(الرسالۃ ص380فقرہ نمبر 1035)
یعنی سماع کی تصریح کے بغیر مدلس کی روایت غیر مقبول ہے۔
لہٰذا ابو داود والی روایت مذکورہ کی سند ابو الزبیر کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اس ضعیف روایت کے تین صحابہ ، سیدنا ابن عمر،سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ضعیف شواہد بھی ہیں۔ جن پر علی الترتیب تبصرہ درج ذیل ہے:
شاہد نمبر1:
سفیان(الثوری)عن عبد اللہ بن دینار عن ابن عمر۔ الخ(سنن ابن ماجہ ح3619)علی بن عبد اللہ المدینی رحمہ اللہ نے کہا:
"ان سفیان کان یدلس"
بے شک سفیان (ثوری)تدلیس کرتے تھے۔(الکفایہ ص362 وسندہ صحیح)
امام سفیان ثوری کے شاگردوں ابو عاصم (سنن الدارقطنی ج 3ص102)یحییٰ بن سعید القطان اورعبداللہ بن المبارک نے بھی انہیں مدلس قراردیا ہے۔دیکھئے تہذیب التہذیب(ج11ص192ءج4ص102)وغیرہ لہٰذا یہ سند امام سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
شاہد نمبر2: عن انس رضی اللہ عنہ
سند اول: "معمر عن قتاده عن انس رضي اللّٰه عنه" (سنن ترمذی: 1776)
یہ سند قتادہ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: "لايصح هذ الحديث "اور یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔(حوالہ مذکورہ)
سنددوم: عیینہ بن سالم عن عبید اللہ بن ابی بکر عن انس رضی اللہ عنہ الخ
(کشف الاستارعن زوائد البزار،ج 3ص366ح 2959و مجمع الزوائد ج5 ص139)
اس سند کے راوی عیینہ بن سالم صاحب الالواح پر جرح منقول ہے۔
دیکھئے لسان المیزان (ج4ص444ترجمہ نمبر 6356)اور توثیق کسی سے ثابت نہیں۔