کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 604
ہیں ۔تفسیر طبری صفحہ 152پر ضعیف سند سے لکھا ہوا ہے کہ
"الضَّحَّاك { فَإِذَا فَرَغْت فَانْصَبْ } يَقُول : مِنْ الصَّلَاة الْمَكْتُوبَة قَبْل أَنْ تُسَلِّم , فَانْصَبْ"
یعنی " فَانْصَبْ " کا مطلب یہ ہے کہ فرض نماز سے فارغ ہوتے وقت سلام سے پہلے دعا کرو۔ لہٰذا ان اقوال غیر ثابتہ سے اجتماعی دعا کے قائلین کا مدعا پورا نہیں ہوتا۔
5۔ "قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا" کے سلسلے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول (مختصر الفتاوی المصر یہ ص93) محتاج دلیل ہے۔
عین ممکن ہے کہ ان کی دلیل تفسیر ابن کثیر (ج2ص445) وغیرہ کے آثار واقوال ہوں جو تفسیر طبری (ج11ص 110،111) تفسیر ابن ابی حاتم (ج6ص1980)اور تفسیر عبد الرزاق (ج1ص261حدیث 1171)میں ضعیف و غیر ثابت سندوں سے مذکور ہیں۔ واللہ اعلم
حدیث:"كان موسيٰ بن عمران اذا دعا امن عليه هارون"
تفسیر درمنثور (ج3ص315) میں بغیر سند کے ابو الشیخ (الاصبہانی )سے اور کنزالعمال (ج 2ص622حدیث 4914) میں بحوالہ عبد الرزاق منقول ہے۔ مصنف عبد الرزاق (ج2ص99ح 2651)میں یہی روایت: "بشر بن رافع عن ابي عبداللّٰه عن ابي هريره رضي اللّٰه عنه...الخ" کی سند سے مذکور ہے۔ بشر بن رافع ضعیف الحدیث تھا۔
دیکھئے تقریب التہذیب (685)اور ابو عبد اللہ کی توثیق بھی ثابت نہیں ہے۔
لہٰذا یہ سند دو وجہ سے ضعیف ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے قول : "والاجتماع على القراءة والذكر والدعاء حسن إذا لم يتخذ سنة راتبة ولا اقترن به منكر من بدعة"
قراءت ذکر اور دعاء پر اکٹھا ہونااچھا ہے بشرطیکہ اسے سنت راتبہ نہ سمجھا جائے اور نہ اس کے ساتھ کسی بری بدعت کا اضافہ کر دیا جائے۔(مختصر الفتاوی المصریہ ص92)کا تعلق بعض اوقات دعا سے ہے نہ کہ فرض نماز کے بعد کیونکہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ خود لکھتے ہیں:
"أما دعاء الإمام والمأمومين جميعا عقيب الصلاة فهو بدعة ، لم يكن على