کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 60
5۔ضامن علی جلال آبادی کو توحید میں غرق سمجھنے والے رشید احمد گنگوہی نے اپنے پیر حاجی امداداللہ کو ایک خط لکھا تھا جس کے آخر میں وہ لکھتے ہیں:
’’یااللہ معاف فرمانا ہے کہ حضرت کے ارشاد سے تحریر ہوا ہے۔جھوٹا ہوں،کچھ نہیں ہوں۔تیرا ہی ظل ہے۔تیرا ہی وجود ہے میں کیا ہوں،کچھ نہیں ہوں۔اور وہ جو میں ہوں وہ تو ہے اور میں اور تو خود شرک درشرک ہے۔استغفراللہ۔۔۔‘‘ !
(فضائل صدقات از زکریا کاندھلوی دیوبندی حصہ دوم ص556 واللفظ لہ مکاتیب رشیدیہ ص10)
میں(گنگوہی) اور تُو(خدا) کاایک ہونا وہ عقیدہ ہے جو وحدت الوجود کے پیروکار اور ابن عربی وغیرہ کے مقلدین کئی سو سالوں سے مسلسل پیش کررہے ہیں۔
6۔خواجہ غلام فرید ،شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا رد کرنے ،عقیدۂ استوی علی العرش کو غلط اور عقیدۂ وحدت الوجود کو حق قراردینے کے بعد کہتے ہیں:
’’وحدت الوجود کو حق تسلیم کرنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب خدا کے سواکسی اور کا کوئی وجود ہی نہیں بلکہ سب خدا کا وجود ہے تو پھر بت پرستی کیوں ممنوع ہے اس کا جواب یہ ہے۔بت خدا نہیں بلکہ خدا سے جدا نہیں ہے مثال کے طور پر زید کاہاتھ زید نہیں ہے لیکن زید سے جدا نہیں ہے۔۔۔‘‘ (مقابیس المجالس عرف اشاراتِ فریدی ص218)
7۔خواجہ محمد یارفریدی کہتے ہیں:
"گرمحمد نے محمد کو خدا مان لیا۔۔۔۔۔پھر تو سمجھو کہ مسلمان ہے دغا باز نہیں"
(دیوان محمدی ص 156)
یہ وحدت الوجود ہی کا عقیدہ ہے جس کی وجہ سے محمد یار صاحب نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا مان لیا ہے:سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا
8۔محمد قاسم نانوتوی،رشید احمد گنگوہی اور اشرف علی تھانوی کے پیر حاجی امداد اللہ کہتے ہیں:
’’حرمین مین بعض امور عجیب وپسندیدہ ہیں(1) وحدۃ الوجود لوگوں میں بہت مرُتکز ہے میں مدینہ میں مسجد قبا کی زیارت کو گیا ایک آدمی کودیکھا کہ اندر مسجد کے جاروب کشی میں مشغول