کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 595
عند اللہ ماجور ہوں:
1۔لوگوں میں مشہور ہے کہ ایک حکیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ میں حاضر ہوا آپ نے اس کو حکم دیا کہ مدینہ میں ہی رہے وہ ایک مہینہ ٹھہرا رہا ایک مہینے کے بعد اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میرے پاس کوئی مریض نہیں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں کے لوگ کھانا تب کھاتے ہیں جب ان کو سخت بھوک لگی ہوتی ہے اس لیے لوگ بیمار نہیں ہوتے۔
مہر بانی کر کے وضاحت فرمادیں کیا یہ بات درست ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر بہتان ہے۔(محمد رمضان سلفی خطیب جامع بیت المکرم اہلحدیث ، عارف والا)
الجواب: یہ روایت تلاش بسیار کے باوجود مجھے کہیں نہیں ملی۔
تنبیہ(1): جس روایت کی سند اور حوالہ نہ ہو وہ مردود و بے اصل کے حکم میں ہوتی ہےالایہ کہ کوئی شخص اس کی صحیح و حسن سند دریافت کر لے۔
تنبیہ(2): یحییٰ بن جابر الطائی(ثقہ ؍تابعی) فرماتے ہیں:"سمعت المِقْدَام ابْن مَعْدِي كَرِبَ الکندی قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا مَلأ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ فَإِنْ كَانَ لا مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ"
میں نے مقدام بن معدی کرب الکندی( رضی اللہ عنہ )سے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ:ابن آدم علیہ السلام نے پیٹ سے زیادہ برا برتن کوئی نہیں بھرا۔ابن آدم علیہ السلام کے لیے اتنے لقمے کافی ہیں جن سے اس کی پیٹھ سیدھی ہو جائے۔ اگر(پیٹ بھرنا) ضروری ہے تو تین حصے کرے،ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے۔
(مسند احمد ج4ص132ھ 17318وسندہ صحیح و صححہ الحاکم 4؍331ح 7945 و وافقہ الذہبی)
یہ روایت سنن الترمذی (2380 وقال : ھذا حدیث حسن صحیح)اور صحیح ابن حبان (موارد الظمآن :1349الاحسان :673)میں بھی موجود ہے۔بعض لوگوں نے