کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 593
20۔زیلعی حنفی نے حسن بن زیاد کے بارے میں لکھا:"ونقل عن آخرين أنهم رموه بحب الشباب ، وله حكايات تدل على ذلك"
"پھر انھوں(ابن عدی)نے دوسروں سے نقل کیا کہ یہ لڑکوں سے محبت کرتا تھا اور اس کے قصے اس پر دلالت کرتے ہیں۔(نصب الرایہ1؍53)
جم غفیر اور جمہور محدثین کی اس جرح کے مقابلے میں درج ذیل تو ثیق مروی ہے:
1۔مسلمہ بن قاسم نے اسے ثقہ کہا۔
عرض ہے کہ مسلمہ مذکور بذات خود ضعیف و مشبہ تھا۔ دیکھئے میزان الاعتدال (4؍112)اور لسان المیزان (6؍35)
2۔حاکم نے اس سے المستدرک میں روایت لی ہے۔
عرض ہے کہ مجھے حسن بن زیاد اللؤلؤی کی کوئی روایت المستدرک میں تصحیح کے ساتھ نہیں ملی اور حاکم کا مستدرک میں صرف روایت لینا حاکم کے نزدیک بھی راوی کی توثیق نہیں ہے۔ نیز دیکھئے المستدرک (3؍589ح6492)
3۔ابو عوانہ نے المستخرج (1؍9ح12) میں اس سے روایت لی۔
عرض ہے کہ اس روایت میں لؤلؤی کی صراحت نہیں اور اگر صراحت ہوتی بھی تو جمہور کی جرح کے مقابلے میں مردود ہے۔
نیز دیکھئے میزان الاعتدال (2؍491، لسان المیزان 3؍338ترجمہ عبد اللہ بن محمد البلوی)
4۔اگر کوئی کہے کہ ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے تو اس کاجواب یہ ہےکہ لؤلؤی کی صراحت کے ساتھ کتاب الثقات میں ہمیں اس کا ذکر نہیں ملا اور دوسرے یہ کہ اگر ابن حبان رحمہ اللہ سے یہ توثیق ثابت بھی ہوتی تو جمہور کی جرح کے مقابلے میں مردودتھی۔
5۔اگر کوئی کہے کہ یحییٰ بن آدم نے کہا:میں نے حسن بن زیاد سے زیاد کوئی فقیہ نہیں دیکھا۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ للصمیری ص131)
عرض ہے کہ یہ قول احمد بن محمد الصیر فی ،محمد بن منصور اور محمد بن عبید اللہ الہمدانی کی وجہ