کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 592
میں ضعیف تھا ،ثقہ اور قابل اعتماد نہیں تھا ۔ (الجرح والتعدیل 3؍15،علل الحدیث 2؍432ح 2806) 10۔اسحاق بن اسماعیل الطالقانی (ثقہ عندالجمہور )نے کہا:ہم وکیع (بن الجراح) کے پاس تھے کہ کہا گیا:بے شک اس سال بارش نہیں ہو رہی، قحط ہے۔تو انھوں نے فرمایا: قحط کیوں نہ ہو؟حسن اللؤلؤی اور حماد بن ابی حنیفہ جو قاضی بنے بیٹھے ہیں۔ (الضعفاء للعقیلی 1؍ ،228،وسندہ صحیح) تنبیہ: اس عبارت کا ترجمہ ماہنامہ الحدیث (عدد 16ص36)میں میں غلط چھپ گیا تھا۔ 11۔جوز جانی نے کہا:اسد بن عمرو، محمد بن الحسن اور لؤلؤی سے اللہ فارغ ہو چکا ہے۔(احوال الرجال 76،77رقم :96،99) یعنی اللہ نے ہمیں ان سے نجات دے دی ہے یا یہ کہ وہ اللہ کی عدالت میں حاضر ہو کر اپنے اپنے مقامات پر پہنچ چکے ہیں۔ واللہ اعلم 12۔عقیلی نے حسن بن زیاد کو کتاب الضعفاء میں ذکر کر کے جروح نقل کیں اور کسی قسم کا دفاع نہیں کیا۔ 13۔ابن الجوزی نے اسے کتاب الضعفاء والمتروکین (1؍202ت821)میں ذکر کیا۔ 14۔ابن عدی نے کہا:اور وہ ضعیف ہے۔الخ(الکامل 2؍732) 15۔ابن شاہین نے اسے تاریخ اسماء الضعفاء والکذابین (ص72ترجمہ 118)میں ذکر کیا ۔ 16۔حافظ سمعانی نے کہا:لوگوں نے اس میں کلام کیا ہے اور وہ حدیث میں کچھ چیز نہیں ہے۔(الانساب5؍146) 17۔ابن اثیر نےکہا:اور وہ روایت میں سخت ضعیف ہے، کئی (علماء )نے اسے کذاب کہا ہے اور وہ بڑا فقیہ تھا۔ (غایۃ النہایہ فی طبقات القراء 1؍213ت975) 18۔حافظ ہیثمی نے کہا : اور وہ متروک ہے۔ (مجمع الزوائد6/262) 19۔حافظ ذہبی نے کہا:اس کے ضعف کی وجہ سے انھوں (محدثین)کے کتب ستہ میں اس سے روایت نہیں لی اور وہ فقہ میں سردار تھا۔(العبر فی خبر من غبر 1؍270وفیات 204ھ) ذہبی نے اسے دیوان الضعفاء (1؍185ت905) میں بھی ذکر کیا ہے۔